Tuesday, September 5, 2017

چترال میں اسلام کی آمد

چترال میں اسلام کی آمد

گل مراد خان حسرت


قبل از اسلام دور
اسلام سے پہلے اس علاقے میں جن مذاہب اور تہذیبوں کی موجودگی کا انکشاف اب تک ہوا ہے ان میں سے اولین کا تعلق قدیم آریاؤں سے ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ جیسے TUCCI ، STACUL ٗ احمد حسن دانی، اور ڈاکٹر احسان علی کے مطابق اس دور سے تعلق رکھنے والی جو قبریں چترال میں پرواک، سنگور اور اوچشٹ کے مقامات پر دریافت ہوئی ہیں، ان کا زمانہ ۲۵۰۰ اور ۱۰۰۰ قبل از مسیح کے درمیان ہے۔ اس تہذیب کو یہ ماہرین Gandhara Grave Culture کا نام دیتے ہیں۔ اور چترال میں دریافت شدہ آثار کو تین مختلف ادوار سے متعلق بتاتے ہیں۔ اس تہذیب سے تعلق رکھنے والوں کے مذہب کے بارے میں خیال ہے کہ وہ مظاہر پرست تھے، یعنی سورج، پہاڑوں، دریاؤں، درختوں، اور آگ وغیرہ کی پرستش کرتے تھے۔ دیگر مظاہر پرستوں کی طرح آریہ بھی ہر اس چیز کو پوجتے تھے جو ان کے لیے مفید ثابت ہوتی تھی، خصوصاً زراعت کے لیے۔ تاہم اس علاقے میں آتش پرستی کے اثرات زیادہ ملتے ہیں کیونکہ ایران کے ہخامشی (Achemanian) خاندان کے عہد (۵۰۰ تا ۳۲۷ ق م) میں بادشاہ دارائے اول (Darius-I) نے اپنی فتوحات کا دائرہ چترال اور اس کے گرد و نواح تک وسیع کیا تھا۔ یاد رہے کہ ہخامشی دور میں ایران میں مجوسی مذہب رائج تھا جس میں آتش پرستی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس علاقے میں ایرانی ثقافت کا ایک اور ورثہ جشن نوروز ہے۔ جو چترال کے بعض علاقوں میں منایا جاتا ہے۔ کوئی نصف صدی قبل اس تہوار کو فروری کے مہینے میں 'سال غریئک' یا "پتھاک" کے نام سے منانے کا رواج تھا۔ تاہم اب چترال کے اسماعیلی، دیگر علاقوں کے اسماعیلیوں کے ساتھ اسے نوروز کے نام سے ۲۱ مارچ کو مناتے ہیں۔
اگلا دور جس کے بارے میں کچھ شواہد ملتے ہیں، بدھ مت کا ہے۔ دوسری صدی عیسوی میں جب کنشک بادشاہ بنا تو اس نے بدھ مذہب کی سرپرستی کی۔ اس کے نتیجے میں اس کی سلطنت میں بدھ مت خوب پھیلا۔ اس کی سلطنت پشاور سے چینی ترکستان تک پھیلی ہوئی تھی۔ شمالی پاکستان بشمول چترال اس سلطنت کا حصہ تھا۔ ۶۲۹ میں چینی سیاح ہیون سانگ یہاں سے ہو کر گندھارا کی طرف گیا۔ وہ اس پورے علاقے کو مستوج کا نام دینے ہیں۔ وہ کہتے ہیں "یہاں تمام فصلیں پیدا ہوتی ہیں۔ گندم، دالوں اور انگوروں کی بہتات ہے۔ موسم سرد ہے ۔ لوگ تنومند، سچے اور کھرے ہیں۔ ان کی سوچ محدود ہوتی ہے اور یہ درمیانے درجے کے محنتی ہیں۔ زیادہ تر اونی کپڑے پہنے جاتے ہیں۔ بادشاہ اور رعایا سب بدھ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ مذہبی رسوم کے زیادہ پابند تو نہیں لیکن عقائد میں مخلص ہیں۔ یہاں پر صرف دو خانقاہیں ہیں جن میں راہبوں کی ایک چھوٹی تعداد رہتی ہے۔ "
چترال میں رائین، چرون اور برینس کے مقامات پر اس دور سے تعلق رکھنے والے چٹانی کتبات ملتے ہیں، جن پر کھروشتی رسم الخط کی تحریروں کے ساتھ بدھ سٹوپا کی تصویریں کندہ ہیں۔ ان کتبات میں راجہ جے ورمن کا ذکر ملتا ہے۔ بدھ مذہب کا رواج اس علاقے میں تقریباً دسویں صدی عیسوی تک رہا اور اس کے بعد اسے زوال آنا شروع ہو گیا۔ اس زمانے میں لوگ واپس قدیم مظاہر پرستی کی طرف لوٹ گئے۔ عبدالحمید خاور کے مطابق اسلام کی آمد کے وقت گلگت اور چترال کے لوگوں کا مذہب نہ بدھ تھا اور نہ انہیں شیومت سے کوئی نسبت تھی۔ بلکہ قدیم آرین مظاہر پرستی اور اوہام پرستی کے طریقوں پر چل رہے تھے۔ یہی وہ عقاید ہیں جن پر آج کلاش لوگ کاربند ہیں۔
چترال میں جب اسلام آیا تو اس کا واسطہ کھو اور کلاش کلچروں سے پڑا۔ ان دونوں ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے اس وقت اپنے قدیم کافر طریقوں پر چل رہے تھے۔ چترالی روایات میں ان دونوں ثقافتوں کو ملا کر کلاش دور کہا جاتا ہے۔ بالائی چترال میں ہمیں جا بجا کافر دور سے منسوب قلعوں اور دیہات کے نام ملتے ہیں۔ ریری اویر میں گاؤں کے اوپر ٹیلے پر کھنڈرات ہیں جن کے متعلق مقامی روایات ہیں کہ یہ کلاش سردار ژونگ کے قلعے کے ہیں۔ اور یہ کہ قلعے سے لے کر نیچے ندی تک ایک سرنگ بھی موجود تھی۔ لولیمی تریچ میں ایک گاؤں کا نام کلاشاندہ ہے اور سہرت موڑکھو میں ایک گاؤں کلاشاندور کہلاتا ہے۔ کلاش آبادی کے بارے میں سنوغر اور پرواک میں بھی روایات موجود ہیں۔ پرواک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کافر دور میں یہ ایک سر سبز خطہ تھا۔ روایت یہ ہے کہ پرواک تین بھائیوں کی ملکیت تھا۔ جن میں سے ایک جس کا نام دربتوشالی تھا، پرواک لشٹ میں مقیم تھا اور اس کے قلعے کے اثار یہیں ملتے ہیں۔ دوسرا جو سگ کہلاتا تھا نصر گول میں رہتا تھا اور اسی مناسبت سے یہ جگہ سگو لشٹ کہلاتا ہے۔ جبکہ تیسرے بھائی شپیر کی جائے رہایش زیریں پرواک تھی اور یہ علاقہ اب شپیرو لشٹ کہلاتا ہے۔
چترال میں کافر دور کے معاشرے کی ایک خصوصیت یہ رہی ہے کہ عورت کو آیام کے دوران آبادی سے دور ایک مکان میں رکھا جاتا تھا۔ اس مکان کو کھوار میں بشالینی کہتے ہیں جبکہ کلاش اسے بشالی کہتے ہیں۔ بالائی چترال میں کئی مقامات اب بھی بشالینی کہللاتے ہیں جیسے بونی میں دریا کے کنارے، پھار گام کوشٹ میں ندی کے کنارے، شوتخار میں ٹیلے کے اوپر اور تریچ میں دریا کنارے۔ کسی زمانے میں ان جگہوں پر بشالینی موجود ہوں گے، لیکن اب صرف ان کے بام باقی رہ گئے ہیں۔
بالائی چترال کی روایات میں ایک حکمران سوملک کا ذکر ملتا ہے۔ ان کے متعلق روایت ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی ہی میں اپنی موت کی خیرات دی، جس کا سلسلہ سات دن تک جاری رہا۔ یاد رہے کہ کلاش اور قبل اسلام کے کھو معاشروں میں موت کے خیرات کی بہت اہمیت ہے۔
چترال پر لشکر اسلام کا حملہ
ساتویں اور آٹھویں صدی میں چترال اور اس کے ارد گرد کے علاقے چینی سلطنت کا حصہ تھے۔ ۷۵۱ ء میں چینیوں اور مسلمانوں کے درمیاں فیصلہ کن جنگ کے نتیجے میں ان علاقوں پر سے چینی اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ اس کے بعد تبتیوں نے آگے بڑھ کر ان علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ تبتیوں کے توسیع پسندانہ عزائم کی روک تھام کے لیے خلیفہ ہارون رشید (۸۱۳-۸۳۳) کے دور میں تبت کی تسخیر کے لیے مہم روانہ کی گئی۔ شاہ کابل کے تخت کے کتبے پر پر درج ہے کہ "امام نے سبز علم کو ذوالریاستین کے ہاتھوں کشمیر اور تبت کے علاقوں میں لہرایا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بوخان (واخان)، بلور، جبل خاقان، اور جبل تبت میں فتح سے ہمکنار کیا۔ اس زمانے میں چترال اور اس کے ارد گرد کے علاقے بلور کہلاتے تھے۔
جیسا کہ مذکور ہوا ہے کہ اس حملے کا اصل مقصد تبت اور اس کے مقبوضات کی فتح تھی، اس لیے اسلامی لشکر نے اسلام کی اشاعت کے لئے کوئی کردار ادا نہیں کیا ہو گا۔ چترال میں کوئی ایسا خاندان نہیں جس کی روایات میں ہو کہ وہ اس حملے کے نتیجے میں مسلمان ہوئے تھے۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ اس طرح کے علاقوں کو فتح کرنے کے بعد مسلمان ان کو باجگزار کر کے چھور دیتے تھے اور وہاں ٹھہر کر اسلامی سلطنت کے قیام میں دلچسپی نہیں لیتے۔
چترال میں اسلام کی آمد
چترال میں اسلام چودھویں صدی میں رئیس اول شاہ نادر رئیس کے ساتھ آیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ترکستان میں جس کو کاشعر کہا جاتا تھا، چنگیز خان کے بیٹے چغتائی کی اولاد کی حکومت تھی، جن کو خان کہا جاتا تھا۔ اس وقت کاشعر ایک خود مختار ریاست تھی۔ اور اس کی یہ حیثیت سترہویں صدی تک برقرار رہی۔ یہ خاندان چودھویں صدی میں اسلام قبول کر چکا تھا اور سنی مکتبہ فکر کے ساتھ تعلق رکھتا تھا۔ انہی حکمرانوں نے شاہ نادر کو رئیس بنا کر چترال بھیجا تھا۔ ٔW. Berthhold کے مطابق قدیم ترکستان میں رئیس کا عہدہ موجود تھا، جس پر اس خاندان کے شرفاء میں سے کسی کو مقرر کیا جاتا تھا، جو سلطنت کے کسی حصے پر حاکم ہوتا۔ یعنی موجودہ اصطلاح میں گورنر۔ شاہ نادر رئیس نے چترال کو فتح کر کے یہاں حکومت قائم کی تو یہ سلطنت کاشغر کا حصہ بن گیا۔ اور چترال ہمسایہ ممالک میں کاشغر کہلانے لگا۔ تذکرۃ الابرار میں ہے کہ "خان کاجو کی نقل و حرکت کی خبر سن کر قزن شاہ کاشعر کی طرف چلا گیا۔ یہ ملک سوات کے بالکل نزدیک واقع ہے۔ وہاں کا حکمران طبقہ ترکی بولنے والے سنی مسلمانوں اور رعایا کفار پر مشتمل ہے."
شاہ نادر رئیس کی آمد کے وقت یہاں کوئی مسلمان موجود نہیں تھا۔ تورکھو اور موڑ کھو میں سوملک کی اولاد کی حکومت تھی۔ علاقہ بیار کی آبادی قدیم آریہ نسل کے کافروں پر مشتمل تھی جب کہ برینس سے نیچے کلاش کافر سردار حکومت کرتے تھے۔ رئیس کو یہ علاقے فتح کرتے ہوئے چترال پہنچنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی کیونکہ یہاں کی قلیل آبادی مزاحمت کے قابل نہیں تھی۔ البتہ چترال میں کلاش حکمران بل سنگھ سے اس کی جنگ ہوئی۔ بل سنگھ جود مارا گیا اور اس کا بیٹا مطیع ہو کر مسلمان ہوا۔ شاہ نادر رئیس نے موجودہ ژانگ بازار میں قلعہ تعمیر کیا اور اپنے مغل فوجیوں کو قلعہ سے متصل آباد کیا۔ یہ جگہ اب بھی مغلان دہ یعنی مغلوں کا گاؤں کہلاتا ہے۔ رئیس کی آمد کے ساتھ چترال اور اس کے نواحی علاقوں میں مسلمان آبادی وجود میں آئی جس میں فاتحین کے علاوہ مقامی نو مسلم بھی شامل تھے۔ رئیس اول کے بعد جان رئیس اور خان رئیس حکمران بنے۔ خان رئیس نے سوملکی حکمران یاری بیگ کو ہرا کر موڑ کھو پر بھی قبضہ کر لیا۔ اور ان علاقوں میں پہلی بار اسلام کی اشاعت کی راہ ہموار ہو گئی۔ بالائی چترال میں اویر سے موڑکھو کے علاقے تک پہلی بار اسلام پہنچا۔ محمد عرفان عرفان کی تحقیق کے مطابق شاہ اکبر رئیس کے زمانے میں شاہ شمس اور اس کے تین مرید بابا ایوب، شیخ ایوب اور ملائے روم اویر آئے۔ اس زمانے میں یہاں اسلام نہیں پھیلا تھا۔ شاہ شمس نے اشاعت اسلام کے لیے اس علاقے کی یوں تقسیم کی۔ شیخ ایوب کو اویر، بابا ایوب کو لون گہکیر اور ملائے روم کو موڑ کھو۔ اور خود یہاں سے چلے گئے۔ ان تین درویشوں نے یہاں اسلام کی تبلیغ کا کام کیا۔ اٹھارویں صدی تک اس علاقے کے تمام لوگ مسلمان ہو چکے تھے۔ اس کا ثبوت شاہ عبد القادر رئیس کی سند ہے جو اس نے ملا بابا آدم کو اویر سے لیکر موژ گول تک کے قضاۃ کے عہدے پر تقرری کے لیے دیا تھا۔ سند کی تاریخ ۱۱۷۶ ھ (۱۷۶۳ ع) ہے۔ نیز سند میں خاص چترال کے قاضی کا عہدہ بھی انہی عالم کو دیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ علاقوں کے لوگ دیگر علاقوں کی نسبت پہلے مسلمان ہو چکے تھے۔ شاہ ناصر رئیس کا دور اس سلسلے میں خصوصی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ انہی کے زمانے میں اسلام کی اشاعت میں تیزی آئی۔ ان کے امراء کی اکثریت اہل سنت عقیدے سے تعلق رکھنے والوں پر مشتمل تھی۔ ان میں تورکھو کے بائک اور خوش، موڑ کھو کے حاتم بیگ، تریچ کے ماژ، اویر کے مقصود اور خوشحال بیگ، کوہ کے خسرو اور شغنی، اور دنین کے مرزا بیگال شامل تھے۔ انہی کی اولاد سے جو قبائل وجود میں آئے وہ انہی کے نام سے موسوم ہیں۔ اسی طرح دربار میں ملائے روم کی اولاد بھی موجود تھی، جن کا مسکن موڑکھو تھا۔ اہل دربار سب سے زیادہ اہمیت سنگین علی کو حاصل تھی جس کا عہدہ سپہ سالار کا تھا۔ سنگین علی کی اولاد سے کئی قبایل وجود میں آئے جن میں سے کٹورے اور خوش وقتے نے چترال اور گلگت کے حکمران رہے۔چترال اور شاہ ناصر خود سنی المذہب تھا اور اس کی اولاد بھی اسی پر قائم رہی۔ شاہ ناصر نے مذہب کی ترویج کے لیے بدخشان سے علماء کو چترال بلا کر یہاں آباد کیا۔ ان میں سے ایک عالم ملا دانشمند رستافی کا نام تاریخ میں ملتا ہے۔ اسے خاص چترال بشمول علاقہ کوہ کا قاضی مقرر کیا گیا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دور تک چترال سے برینس تک اسلام مکمل طور پر پھیل چکا تھا۔
شاہ ناصر کے دور کا ایک اہم کام زیریں چترال کے علاقوں کو فتح کرنا ہے۔ یہ علاقہ مختلف کلاش سرداروں کے زیر نگیں تھا۔ اس فتح سے اس علاقے میں اسلام کی اشاعت کی راہ ہموار ہوئی اور اسلام بتدریج اس خطے میں پھیلنے لگا۔ یہاں تک کہ موجودہ دور میں بمبوریت، بریر اور رومبور کی وادیوں کے سوا کلاش مذہب کا نام و نشان نہیں ملتا۔
جنوب میں گبرونگ کے علاقے کے لوگ غالباً افغانوں کے زیر اثر پہلے مسلمان ہوئے۔ شاہ محمد شفیع کی ایک سند میں ملا بابا آدم کو نرست کے علاقے کی زکواۃ جمع کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت یہ علاقہ مسلمان تھا۔
چترال میں اسماعیلی مذہب
چترال میں اسماعیلی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد سنیوں سے بہت کم ہے۔ اسماعیلی بیشتر مستوج اور لٹکوہ کی تحصیلوں میں رہتے ہیں۔ آج سے تقریباً سو سال پہلے تک تحصیل مستوج میں سنیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ لیکن آج اس علاقے میں ان کی قابل قدر تعداد بستی ہے۔
چترال اور گلگت میں اسماعیلی مذہب کے پیرو کار آج اس مذہب کی نئی شکل کی پر عمل کرتے ہیں جب کہ بدخشان، قولاب، درواز، شغنان، واخان، سیقول اور سنکیانگ میں یہ لوگ مذہب کی اس قدیم شکل پر عمل پیرا ہیں، جو حکیم ناصر خسرو (جنہیں یہاں پیر شاہ ناصر کہا جاتا ہے) سے منسوب ہے۔ اس طریقے میں امام کے نائبین پیر اور ان کے نائبین خلیفہ کہلاتے ہیں جو عموماً سید نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ناصر خسرو گیارہویں صدی عیسوی میں بدخشان کے درہ یمگان میں آکر مقیم ہوئے اور باقی ساری زندگی یہیں روپوشی میں گزاری۔ چترال کے اسماعیلیوں میں یہ روایت ہے کہ وہ چترال کے علاقے گرم چشمہ بھی آئے۔ اس جگہ ایک زیارت گاہ بھی ان سے منسوب ہے۔ لیکن ان کے سفر نامے میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ قیام یمگان کے دوران انہوں نے ارد گرد کے علاقوں میں دعوت کا ایک سلسلہ قائم کیا اور مختلف علاقوں میں داعی بھیجے۔ ان داعیوں کا سلسلہ نسل در نسل آگے چلا۔
شاہ ناصر رئیس کے دور میں ملک اژدر کے تین بیٹے سیرنگ، سورونگ اور یخشی گلگت کی طرف سے چترال کے علاقے میں آئے۔ یہ اس علاقے میں آنے والے اولیں اسماعیلی تھے۔ ان میں سے سورونگ لاسپور کے گاوں بروک میں قیام پذیر ہوا جب کہ یخشی اور سیرنگ سنوغر میں بس گئے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں یہاں کی آبادی بہت کم تھی۔ یہ تھوڑے سے لوگ قدیم مظاہر پرستانہ مذہب پر کاربند تھے۔ سیرنگ اور یخشی نے اپنے پیر شاہ محمد رضا کو اشکاشم سے بلایا اور وہ سنوغر میں ٹھہر گیا۔ ان کا تعلق ناصر خسرو کے سلسلے سے تھا۔ انہوں نے اس علاقے میں دعوت کا کام شروع کیا جس کے نتیجے میں قدیم مذہب کے ماننے والے اس کے پیرو کار بن گئے۔ اس علاقے میں ان کی اولاد نے بھی اسماعیلی دعوت کو جاری رکھا جس کے نتیجے میں اہل سنت سے تعلق رکھنے والے رضا خیل، خوشوقتے اور خوشآمدے خاندانوں کے ان افراد نے بھی، جو علاقہ بیار میں آباد تھے ، اسماعیلی مذہب قبول کر لیا۔
جہاں تک لٹکوہ میں اسماعیلیت کی اشاعت کا تعلق ہے، اس کا سہرا ان آباد کاروں کے سر ہے جو بدخشان کے علاقہ منجان سے یہاں آ کر آباد ہوئے۔ اس نسل کے لوگ اب بھی اس علاقے میں موجود ہیں اور یدغا زبان بولتے ہیں۔ اس علاقے کی وادی ارکاری میں اسماعیلی مذہب کی اشاعت میں شاہ نواز اول کے خاندان کا کردار اہم ہے۔ وہ زیباک کے میران کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ انہیں اس علاقے میں مذہبی پیشوائی بھی حاصل تھی، اس لیے انہیں پیر کہا جاتا ہے۔ ان کے بیٹے شاہ عبد الرحیم اول امام کی طرف سے زیباک، شاخدرہ اور اشکاشم کی پیشوائی پر مامور تھا۔ ان کے بعد ان کا بیٹا شاہ یاقوت مسند نشین ہوا۔ ایک روایت کے مطابق ہنزہ کا میر غضنفر انہی کے ہاتھوں اسماعیلی مذہب میں داخل ہوا۔ اس سے پہلے ان کا خاندان شعیہ تھا۔ شاہ یاقوت کا بیٹا شاہ پرتوی اور ان کا بیٹا شاہ عبد الرحیم ثانی بھی مسند پیری پر فائز رہے۔ اس سلسلے کے سارے پیروں نے لٹکوہ میں دعوت کا کام داعیوں کے ذریعے جاری رکھا۔ یہ داعی، جو عام طور پر سید ہوتے تھے، لٹکوہ میں آ کر قیام پذیر ہوئے۔ ان کے ہاتھوں لٹکوہ کی ساری آبادی قدیم مذہب کو چھوڑ کر اسماعیلی طریقے میں داخل ہو گئی۔
افغانستان کے امیر شیر علی کے عہد میں حالات کو نا موافق پا کر اس خاندان نے چترال کی طرف ہجرت کی۔ اس وقت کے مہتر امان الملک نے شاہ عبد الرحیم کو ارکاری اور ان کے بھایئوں کو چوئنج میں جائدادیں دے کر آباد کیا۔ نیز ان کے ساتھ رشتے بھی کیے جس کے نتیجے میں ان کی پوزیشن مستحکم ہو گئی اور وہ نہایت دلجمعی سے دعوت کا کام کرنے لگے۔
ایک اور خاندان شاہ اردبیل کا ہے جو اٹھارویں صدی کے وسط میں بدخشان سے آ کر حسن آباد شغور میں آباد ہوگیا۔ شاہ اردبیل کا بیٹا شاہ حسین اور ان کا بیٹا سید غلام علی تھا۔ اس خاندان کے مرید چترال کے علاوہ ہنزہ میں بھی موجود تھے۔ سید غلام علی شاہ کے بعد ان کے فرزند شاہ عبد الحسن پیر بنا۔ اس طرح یہ خاندان پانچ پشتوں تک دعوت کا کام کرتا رہا۔
اہل سادات میں سے ایک اور خاندان ریچ کا ہے۔ ان کا جد اعلیٰ شاہ محمد وصی رئیس دور میں چترال آیا۔ چترال آنے سے پہلے وہ یاسین میں ٹھہرا، اور یہیں شاہ بابر رئیس کی بہن سے شادی کر لی، جو شاہ ناصر رئیس کی طرف سے یہاں حکمران تھا۔ شاہ وصی ریچ میں مقیم ہوا اور یہیں فوت ہوا۔ ان کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ سنی المذہب تھے۔ تاہم اس سلسلے میں درج ذیل نکات قابل غور ہیں۔
۱۔ رئیس دور میں جتنے علماء سنی علماء باہر سے آئے، وہ خاص چترال اور اس کے نواح میں آباد ہوئے۔ جب کہ اسماعیلی داعی اور سادات باہر سے آ کر واخان اور بدخشان کی سرحدوں سے متصل علاقوں میں مقیم ہوتے رہے، تا کہ سرحد پار اسماعیلیوں کے ساتھ آسانی سے رابطہ رکھ سکیں
۲۔ چترال میں جتنے بھی سادات آئے وہ اسماعیلی دعوت سے منسلک تھے۔
۳۔ کسی بھی مذہبی شخصیت کی اولاد کا جائزہ لے کر ہم اس شخصیت کے مذہب کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ سادات ریچ کے بارے معلوم ہے کہ ان میں اب سے چار پانچ پشت پہلے تک کوئی سنی المذہب نہ تھا۔ یہ سب اسماعیلی تھے اور عموماً خلیفہ کا منصب اسی سلسلے کے سادات کے لیے مختص تھا۔ یہی لوگ نکاح، جنازہ، دعا اور چراغ روشن وغیرہ کی رسومات کی ادائیگی کے ذمہ دار تھے۔ 
ان حقائق کے پیش نظر یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ شاہ محمد وصی اسماعیلی داعی کی حیثیت سے آیا ہو گا۔ نیز یہ کہ تور کھو میں اسماعیلی مذہب کو پھیلانے میں ان اور ان کے خاندان کا کردار ہو سکتا ہے۔
چترال میں اسماعیلی مذہب کو پھیلانے کے سلسلے میں ایک اور نام پیر سید جلال کا بھی ہے۔ اس کے علاوہ یاسین، غذر اور پنیال میں اس مذہب کو پھیلانے میں سید اکبر شاہ کا نام لیا جاتا ہے، جن کی کوششوں سے اس علاقے کے لوگ شیعہ مذہب چھوڑ کر اسماعیلیت میں داخل ہوئے

No comments:

Post a Comment