Thursday, October 5, 2017

اللہ تعالی نے کن لوگوں پر جہنم کی آگ حرام قرار دی ہے



کیا آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے کن لوگوں پر جہنم کی آگ حرام قرار دی ہے اللہ تعالی جو قہار ہے اس نے اپنے جلال کے ثبوت کے لۓ جہنم بنائی ہے جس میں آگ کے الاؤ گناہ گاروں کی سزا کے لۓ جلاۓ گۓ ہیں جس کی تپش دنیا کی آگ سے ہزارہا گنا زیادہ ہو گی۔جہنم کا ایک دن دنیا کے سیکڑوں دنوں سے زیادہ طویل ہو گا اور اس آگ کا ایندھن وہ لوگ بنیں گے جنہوں نے دنیا کی زندگی اللہ پاک کی نافرمانی میں گزاری۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ اللہ رحیم و کریم بھی ہےاس نے اپنے بندوں کے چھوٹے چھوٹے اعمال پر ان کی جہنم کی آگ معاف کردینے کا وعدہ بھی فرمایا ہے ۔آج ہم آپ کو ان ہی اعمال کے متعلق بتائیں گے جن کے کرنے سے جہنم کی آگ انسان کو چھو بھی نہیں پاۓ گی سیدنا معاذرضی اللہ عنہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ کے ہمراہ آپ کی سواری پر آپ کے پیچھے سوار تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اے معاذ رضی اللہ عنہ، انہوں نے عرض کیا لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ وسعدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے معاذ انہوں نے عرض کیا لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسعدیک تین مرتبہ ایسا ہی ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی اپنے سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ سوا اللہ کے کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے.رسول ہیں اللہ اس پر دوزخ کی آگ حرام کر دیتا ہے۔ صحیح بخاری کتاب العلم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور جو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرے گا اسے اللہ تعالیٰ جنتوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وه ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے اور اس کی مقرره حدوں سے آگے نکلے اسے وه جہنم میں ڈال دے گا جس میں وه ہمیشہ رہے گا، ایسوں ہی کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔ سورۃ النسا 13،14 حسن اخلاق سے پیش آنا سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کیا میں تم لوگوں کو ایسے شخص کے متعلق نہ بتاؤں جس پر دوزخ کی آگ حرام اور وہ آگ پر حرام ہے؟یہ وہ شخص ہے جو نرم مزاج اور لوگوں کے قریب ہے اور ان کے لئے سہولت اور آسانی پیدا کرتا ہے۔ اللہ کے خوف سے رونا اور جہاد کا غبار سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص خوف اللہ کی وجہ سے رویا وہ اس وقت تک دوزخ میں نہیں جائے گا یہاں تک کہ دودھ پستان میں واپس ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کا غبار اور جہنم کا دھواں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ ظہر سے پہلے چار اور بعد میں چار رکعات پر ہمیشگی اختیار کرناام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے سُنا.کہ جو شخص ظہر سے پہلے چار اور بعد میں چار رکعتوں کو ہمیشہ پڑھےاسے اللہ تعالٰی جہنم کی آگ پر حرام کر دے گا ۔ فجر اور عصر کی نماز سیدنا عمارة بن رؤيبة رضي الله عنه کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو سورج طلوع اور غروب ہونے سے پہلے نماز پڑھتا ہے جہنم کی آگ اسے چھو بھی نہیں سکے گی یعنی فجر اور عصر کی نماز۔ اللہ انسان کو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے وہ رحیم و کریم ہے اس نے انسان کے لۓ جنت کا راستہ آسان اور جہنم کا راستہ مشکل بنایا ہے ۔ جہنم کے راستے پر جگہ جگہ اس نے توبہ و استغفغار کی گنجائش رکھی ہے جس سے انسان کسی وقت بھی فائدہ اٹھا کر راستہ بدل کر جنت کی جانب روانہ ہو سکتا ہے ۔ یہ مہلت انسان کو زندگی کی آخری سانسوں تک حاصل ہے اس سے فائدہ اٹھائیں اور جہنم کی آگ سے نجات حاصل کریں ۔

Monday, September 11, 2017

Leopard Gecko


کل محترم عزیزم صابر مری نے اور آج عزیزم  حاکم بزدار نے ((کھنڑ )) کے متعلق ایک پوسٹ کیا صابر مری کا پوسٹ قدرے تفصیلی تھا پھر بھی تشنگی باقی رہی خیال آیا کہ کچھ تفصیل سے لکھوں ۔
یہ طے شدہ بات ہے کہ ضرب المثل کو لوگ عالمگیر صداقت کہتے ہیں۔جو افراد نہیں معاشروں اور قوموں کے صدیوں کے تجربات اور شواہد کا نتیجہ ہوتا ہے۔
چونکہ بات ہورہی ہے کھنڑ کی تو اس چھپکلی نما جاندار کے متعلق ایک ضرب المثل موجود ہے صدیوں سے وہ یہ ہے
جیںنکوں لڑیا کھنڑ اونکوں ما نہ ڈٹھا جنڑ

اس کا تذکرہ عزیزم صابر نے بھی کیا ۔مگر باتوں باتوں میں کچھ یوں لگا کہ وہ اسکو رد کرگئے۔
پہلے تو اس جانور کے متعلق کچھ معلومات پھر اس کے زہر کے متعلق کچھ باتیں
کھنڑ یہ نام بلوچی اور سرائیکی دونوں میں مستعمل ہے میں وثوق سے تو نہیں کہتا البتہ گمان یہ ہے کہ سرائیکی چونکہ بلوچی کے برعکس اردو کی طرح ایک لشکری زبان یا لہجہ ہے تو اسکی اکثر اصطلاحات مستعار ہیں۔
تو گنجائش ہے کہ میں کہوں سرائیکی نے  کسی زبان سے مستعار لیا۔
مگر شاید بلوچی سے نہ لیا ہو چونکہ اس میں جن  حروف کے جوڑ سے اسے بنایا گیا لگتا ہے  کسی مقامی زبان کا لفظ ہو گا
چونکہ کچھ بعید نہیں کہ بلوچی نے بھی مستعار لیا ہو چونکہ بلوچ جب شام سے ہجرت کرتے ہوئے یہاں آئے اور انکو یہ جاندار  یہاں جب پہلی بار نظر آیا تو مقامی لوگوں سے پوچھا ہوگا اسکو تم کیا کہتے ہو۔
یہ ایک رائے ہے۔
اسکو انگریزی میں
 Leopard Gecko  
کچھ اور مغربی زبانوں میں jeco اور tuko بھی کہا جاتا ہے۔

 علمی نام leopard  Gekko gecko
عربی میں اسکو ، ابو بریص،فارسی میں مارمولک ، کہا جاتا ہے  
 بارانی  علاقوں میں درختوں تختوں اور سوراخوں میں رہتا ہے۔ اکثر رات کو نکلتا ہے اور جہاں پانی کھڑا ہو وہاں اپنے رہائشی سوراخوں سے ٹیلوں پہ نکل آتے ہیں اور ان سے سب زیادہ خطرہ رات کو پانی لگانے والے کسانوں کو ہوتا ہے ۔کیونکہ اسکو تیرنا  بھی آتا ہے۔یہ جاندار  شمال مشرقی هند و بنگلادیش،  جنوب مشرقی ایشیاء اور ملائیشیا میں پایا جاتا ہے۔

کھنڑ یا  مارمولک 15 سنٹی میٹر سے 35 سنٹی میٹر کی لمبائی میں پائے جاتے ہین۔ اسکی شکل سفید چتکبری  ہے اور جسم پہ برصی رنگ کے دھبے ہوتے ہیں شاید عربی اسکو اس لیئے ابو بریص کہتے ہوں۔
علاقے کی نوعیت اور موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے اسکے رنگ مختلف بھی ہوتے ہیں۔
اس کے کھر درے جسم سے ایک ایسی رطوبت خارج ہوتی ہے اگر انسان کے جسم پہ لگ جائے اور جذب ہوجائے تو یقینا موت واقع ہوگی ۔
اس لیے بلوچ کہتے ہیں کہ اگر آدمی پہلے پانی میں گھس جائے تو کھنڑ مر جائے اگر کھنڑ پہلے گھس جائے تو آدمی مر جائے گا ۔
مطلب یہ ہے جذب ہونے سے پہلے دھوکا جائے ۔
کچھ عرصے سے اسکے خرید وفروخت کی باتیں بھی سنی ہیں ۔شاید کسی دوائ میں استعمال ہوتا ہے۔
بہرحال ایک زہریلا جانور ہے اور اسکا دم جلدی ٹوٹ کے گر جاتا ہے۔
یہ کہیں کہیں گھروں میں بھی پایا جاتا ہے
مگر جو ہمیشہ نمی والی جگہ پہ رہتے ہیں وہ لڑاکا نہیں۔
اور جو اچانک پانی یا بارش سے باہر نکل آئیں وہ خطرناک ہیں۔
گھریلو کھنڑ کے متعلق تو میرا اپنا تجربہ ہے۔
اور جنگلی کے متعلق کافی سارے زمینداروں نے بتایا تھا۔
پڑھیں اور شیئر کریں اضافی معلومات سے مطلع کریں۔
زوراخ بزدار

ہور ماثو(بارش کی ماں)


ہور ماثو(بارش کی ماں)
قدرت کے کائنات میں عجیب ترین جانداروں میں سے ایک جو بارش کے بعد پلک جھپکتے ہی دیہاتی اور ریگستانی  علاقوں میں ظاہر ہوتے ہیں اور پھر سورج کی کرنیں اور دھوپ پڑتے ہی روپوش ہو جاتے ہیں۔اب تک یہ پتہ نہیں چل سکا یہ کہاں سے آتے ہیں اور کہاں جاتے ہیں مہینہ دی نانی
دوستو یہ ایک سرخ خوبصورت نرم ملائم چھوٹا سا کیڑا بارش کے بعد ریگستان میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس کے اوپرریشم جیسے باریک بال ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ انتہائی نرم ملائم ہوتا ہے۔
یہ ریگستان میں کبھی نظرنہیں آتا، صرف بارش کے بعد یہ اچانک باہر آجاتے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق یہ بارش کی رات ہی جمتے ہیں۔ لیکن یہ راتوں رات اتنے بڑے کیسے ہوجاتے ہیں یہ ایک سوالیہ نشان ہے؟ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ بارش سے پہلے اسے کبھی نہیں دیکھا جاتا۔ اور بارش کے بعد دھوپ پڑتے ہی یہ گم ہوجاتا ہے۔ اس لئے مقامی لوگ اسے مہینہ یعنی بارش کی نانی کہتے ہیں۔ یہ ڈیرہ غازی خان کے تمام ریگستانوں میں دستیاب ہے۔ کسی کواس کی تفصیل معلوم ہوتو پلیز شیئرکریں۔
میں ایسا ایک کیڑا گھرلے آیا اور ڈبی میں بند کرکے ایک پروفیسر صاحب کو ریسرچ کیلئے بھیجا، دو دن بعد بھی یہ کیڑا زندہ تھا، اسے باغیچے کے پھولوں میں چھوڑ دیا گیا اور یہ کافی دن زندہ رہا۔ لیکن اس پر ریسرچ نہ ہوسکا

Tuesday, September 5, 2017

چترال میں اسلام کی آمد

چترال میں اسلام کی آمد

گل مراد خان حسرت


قبل از اسلام دور
اسلام سے پہلے اس علاقے میں جن مذاہب اور تہذیبوں کی موجودگی کا انکشاف اب تک ہوا ہے ان میں سے اولین کا تعلق قدیم آریاؤں سے ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ جیسے TUCCI ، STACUL ٗ احمد حسن دانی، اور ڈاکٹر احسان علی کے مطابق اس دور سے تعلق رکھنے والی جو قبریں چترال میں پرواک، سنگور اور اوچشٹ کے مقامات پر دریافت ہوئی ہیں، ان کا زمانہ ۲۵۰۰ اور ۱۰۰۰ قبل از مسیح کے درمیان ہے۔ اس تہذیب کو یہ ماہرین Gandhara Grave Culture کا نام دیتے ہیں۔ اور چترال میں دریافت شدہ آثار کو تین مختلف ادوار سے متعلق بتاتے ہیں۔ اس تہذیب سے تعلق رکھنے والوں کے مذہب کے بارے میں خیال ہے کہ وہ مظاہر پرست تھے، یعنی سورج، پہاڑوں، دریاؤں، درختوں، اور آگ وغیرہ کی پرستش کرتے تھے۔ دیگر مظاہر پرستوں کی طرح آریہ بھی ہر اس چیز کو پوجتے تھے جو ان کے لیے مفید ثابت ہوتی تھی، خصوصاً زراعت کے لیے۔ تاہم اس علاقے میں آتش پرستی کے اثرات زیادہ ملتے ہیں کیونکہ ایران کے ہخامشی (Achemanian) خاندان کے عہد (۵۰۰ تا ۳۲۷ ق م) میں بادشاہ دارائے اول (Darius-I) نے اپنی فتوحات کا دائرہ چترال اور اس کے گرد و نواح تک وسیع کیا تھا۔ یاد رہے کہ ہخامشی دور میں ایران میں مجوسی مذہب رائج تھا جس میں آتش پرستی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس علاقے میں ایرانی ثقافت کا ایک اور ورثہ جشن نوروز ہے۔ جو چترال کے بعض علاقوں میں منایا جاتا ہے۔ کوئی نصف صدی قبل اس تہوار کو فروری کے مہینے میں 'سال غریئک' یا "پتھاک" کے نام سے منانے کا رواج تھا۔ تاہم اب چترال کے اسماعیلی، دیگر علاقوں کے اسماعیلیوں کے ساتھ اسے نوروز کے نام سے ۲۱ مارچ کو مناتے ہیں۔
اگلا دور جس کے بارے میں کچھ شواہد ملتے ہیں، بدھ مت کا ہے۔ دوسری صدی عیسوی میں جب کنشک بادشاہ بنا تو اس نے بدھ مذہب کی سرپرستی کی۔ اس کے نتیجے میں اس کی سلطنت میں بدھ مت خوب پھیلا۔ اس کی سلطنت پشاور سے چینی ترکستان تک پھیلی ہوئی تھی۔ شمالی پاکستان بشمول چترال اس سلطنت کا حصہ تھا۔ ۶۲۹ میں چینی سیاح ہیون سانگ یہاں سے ہو کر گندھارا کی طرف گیا۔ وہ اس پورے علاقے کو مستوج کا نام دینے ہیں۔ وہ کہتے ہیں "یہاں تمام فصلیں پیدا ہوتی ہیں۔ گندم، دالوں اور انگوروں کی بہتات ہے۔ موسم سرد ہے ۔ لوگ تنومند، سچے اور کھرے ہیں۔ ان کی سوچ محدود ہوتی ہے اور یہ درمیانے درجے کے محنتی ہیں۔ زیادہ تر اونی کپڑے پہنے جاتے ہیں۔ بادشاہ اور رعایا سب بدھ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ مذہبی رسوم کے زیادہ پابند تو نہیں لیکن عقائد میں مخلص ہیں۔ یہاں پر صرف دو خانقاہیں ہیں جن میں راہبوں کی ایک چھوٹی تعداد رہتی ہے۔ "
چترال میں رائین، چرون اور برینس کے مقامات پر اس دور سے تعلق رکھنے والے چٹانی کتبات ملتے ہیں، جن پر کھروشتی رسم الخط کی تحریروں کے ساتھ بدھ سٹوپا کی تصویریں کندہ ہیں۔ ان کتبات میں راجہ جے ورمن کا ذکر ملتا ہے۔ بدھ مذہب کا رواج اس علاقے میں تقریباً دسویں صدی عیسوی تک رہا اور اس کے بعد اسے زوال آنا شروع ہو گیا۔ اس زمانے میں لوگ واپس قدیم مظاہر پرستی کی طرف لوٹ گئے۔ عبدالحمید خاور کے مطابق اسلام کی آمد کے وقت گلگت اور چترال کے لوگوں کا مذہب نہ بدھ تھا اور نہ انہیں شیومت سے کوئی نسبت تھی۔ بلکہ قدیم آرین مظاہر پرستی اور اوہام پرستی کے طریقوں پر چل رہے تھے۔ یہی وہ عقاید ہیں جن پر آج کلاش لوگ کاربند ہیں۔
چترال میں جب اسلام آیا تو اس کا واسطہ کھو اور کلاش کلچروں سے پڑا۔ ان دونوں ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے اس وقت اپنے قدیم کافر طریقوں پر چل رہے تھے۔ چترالی روایات میں ان دونوں ثقافتوں کو ملا کر کلاش دور کہا جاتا ہے۔ بالائی چترال میں ہمیں جا بجا کافر دور سے منسوب قلعوں اور دیہات کے نام ملتے ہیں۔ ریری اویر میں گاؤں کے اوپر ٹیلے پر کھنڈرات ہیں جن کے متعلق مقامی روایات ہیں کہ یہ کلاش سردار ژونگ کے قلعے کے ہیں۔ اور یہ کہ قلعے سے لے کر نیچے ندی تک ایک سرنگ بھی موجود تھی۔ لولیمی تریچ میں ایک گاؤں کا نام کلاشاندہ ہے اور سہرت موڑکھو میں ایک گاؤں کلاشاندور کہلاتا ہے۔ کلاش آبادی کے بارے میں سنوغر اور پرواک میں بھی روایات موجود ہیں۔ پرواک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کافر دور میں یہ ایک سر سبز خطہ تھا۔ روایت یہ ہے کہ پرواک تین بھائیوں کی ملکیت تھا۔ جن میں سے ایک جس کا نام دربتوشالی تھا، پرواک لشٹ میں مقیم تھا اور اس کے قلعے کے اثار یہیں ملتے ہیں۔ دوسرا جو سگ کہلاتا تھا نصر گول میں رہتا تھا اور اسی مناسبت سے یہ جگہ سگو لشٹ کہلاتا ہے۔ جبکہ تیسرے بھائی شپیر کی جائے رہایش زیریں پرواک تھی اور یہ علاقہ اب شپیرو لشٹ کہلاتا ہے۔
چترال میں کافر دور کے معاشرے کی ایک خصوصیت یہ رہی ہے کہ عورت کو آیام کے دوران آبادی سے دور ایک مکان میں رکھا جاتا تھا۔ اس مکان کو کھوار میں بشالینی کہتے ہیں جبکہ کلاش اسے بشالی کہتے ہیں۔ بالائی چترال میں کئی مقامات اب بھی بشالینی کہللاتے ہیں جیسے بونی میں دریا کے کنارے، پھار گام کوشٹ میں ندی کے کنارے، شوتخار میں ٹیلے کے اوپر اور تریچ میں دریا کنارے۔ کسی زمانے میں ان جگہوں پر بشالینی موجود ہوں گے، لیکن اب صرف ان کے بام باقی رہ گئے ہیں۔
بالائی چترال کی روایات میں ایک حکمران سوملک کا ذکر ملتا ہے۔ ان کے متعلق روایت ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی ہی میں اپنی موت کی خیرات دی، جس کا سلسلہ سات دن تک جاری رہا۔ یاد رہے کہ کلاش اور قبل اسلام کے کھو معاشروں میں موت کے خیرات کی بہت اہمیت ہے۔
چترال پر لشکر اسلام کا حملہ
ساتویں اور آٹھویں صدی میں چترال اور اس کے ارد گرد کے علاقے چینی سلطنت کا حصہ تھے۔ ۷۵۱ ء میں چینیوں اور مسلمانوں کے درمیاں فیصلہ کن جنگ کے نتیجے میں ان علاقوں پر سے چینی اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ اس کے بعد تبتیوں نے آگے بڑھ کر ان علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ تبتیوں کے توسیع پسندانہ عزائم کی روک تھام کے لیے خلیفہ ہارون رشید (۸۱۳-۸۳۳) کے دور میں تبت کی تسخیر کے لیے مہم روانہ کی گئی۔ شاہ کابل کے تخت کے کتبے پر پر درج ہے کہ "امام نے سبز علم کو ذوالریاستین کے ہاتھوں کشمیر اور تبت کے علاقوں میں لہرایا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بوخان (واخان)، بلور، جبل خاقان، اور جبل تبت میں فتح سے ہمکنار کیا۔ اس زمانے میں چترال اور اس کے ارد گرد کے علاقے بلور کہلاتے تھے۔
جیسا کہ مذکور ہوا ہے کہ اس حملے کا اصل مقصد تبت اور اس کے مقبوضات کی فتح تھی، اس لیے اسلامی لشکر نے اسلام کی اشاعت کے لئے کوئی کردار ادا نہیں کیا ہو گا۔ چترال میں کوئی ایسا خاندان نہیں جس کی روایات میں ہو کہ وہ اس حملے کے نتیجے میں مسلمان ہوئے تھے۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ اس طرح کے علاقوں کو فتح کرنے کے بعد مسلمان ان کو باجگزار کر کے چھور دیتے تھے اور وہاں ٹھہر کر اسلامی سلطنت کے قیام میں دلچسپی نہیں لیتے۔
چترال میں اسلام کی آمد
چترال میں اسلام چودھویں صدی میں رئیس اول شاہ نادر رئیس کے ساتھ آیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ترکستان میں جس کو کاشعر کہا جاتا تھا، چنگیز خان کے بیٹے چغتائی کی اولاد کی حکومت تھی، جن کو خان کہا جاتا تھا۔ اس وقت کاشعر ایک خود مختار ریاست تھی۔ اور اس کی یہ حیثیت سترہویں صدی تک برقرار رہی۔ یہ خاندان چودھویں صدی میں اسلام قبول کر چکا تھا اور سنی مکتبہ فکر کے ساتھ تعلق رکھتا تھا۔ انہی حکمرانوں نے شاہ نادر کو رئیس بنا کر چترال بھیجا تھا۔ ٔW. Berthhold کے مطابق قدیم ترکستان میں رئیس کا عہدہ موجود تھا، جس پر اس خاندان کے شرفاء میں سے کسی کو مقرر کیا جاتا تھا، جو سلطنت کے کسی حصے پر حاکم ہوتا۔ یعنی موجودہ اصطلاح میں گورنر۔ شاہ نادر رئیس نے چترال کو فتح کر کے یہاں حکومت قائم کی تو یہ سلطنت کاشغر کا حصہ بن گیا۔ اور چترال ہمسایہ ممالک میں کاشغر کہلانے لگا۔ تذکرۃ الابرار میں ہے کہ "خان کاجو کی نقل و حرکت کی خبر سن کر قزن شاہ کاشعر کی طرف چلا گیا۔ یہ ملک سوات کے بالکل نزدیک واقع ہے۔ وہاں کا حکمران طبقہ ترکی بولنے والے سنی مسلمانوں اور رعایا کفار پر مشتمل ہے."
شاہ نادر رئیس کی آمد کے وقت یہاں کوئی مسلمان موجود نہیں تھا۔ تورکھو اور موڑ کھو میں سوملک کی اولاد کی حکومت تھی۔ علاقہ بیار کی آبادی قدیم آریہ نسل کے کافروں پر مشتمل تھی جب کہ برینس سے نیچے کلاش کافر سردار حکومت کرتے تھے۔ رئیس کو یہ علاقے فتح کرتے ہوئے چترال پہنچنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی کیونکہ یہاں کی قلیل آبادی مزاحمت کے قابل نہیں تھی۔ البتہ چترال میں کلاش حکمران بل سنگھ سے اس کی جنگ ہوئی۔ بل سنگھ جود مارا گیا اور اس کا بیٹا مطیع ہو کر مسلمان ہوا۔ شاہ نادر رئیس نے موجودہ ژانگ بازار میں قلعہ تعمیر کیا اور اپنے مغل فوجیوں کو قلعہ سے متصل آباد کیا۔ یہ جگہ اب بھی مغلان دہ یعنی مغلوں کا گاؤں کہلاتا ہے۔ رئیس کی آمد کے ساتھ چترال اور اس کے نواحی علاقوں میں مسلمان آبادی وجود میں آئی جس میں فاتحین کے علاوہ مقامی نو مسلم بھی شامل تھے۔ رئیس اول کے بعد جان رئیس اور خان رئیس حکمران بنے۔ خان رئیس نے سوملکی حکمران یاری بیگ کو ہرا کر موڑ کھو پر بھی قبضہ کر لیا۔ اور ان علاقوں میں پہلی بار اسلام کی اشاعت کی راہ ہموار ہو گئی۔ بالائی چترال میں اویر سے موڑکھو کے علاقے تک پہلی بار اسلام پہنچا۔ محمد عرفان عرفان کی تحقیق کے مطابق شاہ اکبر رئیس کے زمانے میں شاہ شمس اور اس کے تین مرید بابا ایوب، شیخ ایوب اور ملائے روم اویر آئے۔ اس زمانے میں یہاں اسلام نہیں پھیلا تھا۔ شاہ شمس نے اشاعت اسلام کے لیے اس علاقے کی یوں تقسیم کی۔ شیخ ایوب کو اویر، بابا ایوب کو لون گہکیر اور ملائے روم کو موڑ کھو۔ اور خود یہاں سے چلے گئے۔ ان تین درویشوں نے یہاں اسلام کی تبلیغ کا کام کیا۔ اٹھارویں صدی تک اس علاقے کے تمام لوگ مسلمان ہو چکے تھے۔ اس کا ثبوت شاہ عبد القادر رئیس کی سند ہے جو اس نے ملا بابا آدم کو اویر سے لیکر موژ گول تک کے قضاۃ کے عہدے پر تقرری کے لیے دیا تھا۔ سند کی تاریخ ۱۱۷۶ ھ (۱۷۶۳ ع) ہے۔ نیز سند میں خاص چترال کے قاضی کا عہدہ بھی انہی عالم کو دیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ علاقوں کے لوگ دیگر علاقوں کی نسبت پہلے مسلمان ہو چکے تھے۔ شاہ ناصر رئیس کا دور اس سلسلے میں خصوصی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ انہی کے زمانے میں اسلام کی اشاعت میں تیزی آئی۔ ان کے امراء کی اکثریت اہل سنت عقیدے سے تعلق رکھنے والوں پر مشتمل تھی۔ ان میں تورکھو کے بائک اور خوش، موڑ کھو کے حاتم بیگ، تریچ کے ماژ، اویر کے مقصود اور خوشحال بیگ، کوہ کے خسرو اور شغنی، اور دنین کے مرزا بیگال شامل تھے۔ انہی کی اولاد سے جو قبائل وجود میں آئے وہ انہی کے نام سے موسوم ہیں۔ اسی طرح دربار میں ملائے روم کی اولاد بھی موجود تھی، جن کا مسکن موڑکھو تھا۔ اہل دربار سب سے زیادہ اہمیت سنگین علی کو حاصل تھی جس کا عہدہ سپہ سالار کا تھا۔ سنگین علی کی اولاد سے کئی قبایل وجود میں آئے جن میں سے کٹورے اور خوش وقتے نے چترال اور گلگت کے حکمران رہے۔چترال اور شاہ ناصر خود سنی المذہب تھا اور اس کی اولاد بھی اسی پر قائم رہی۔ شاہ ناصر نے مذہب کی ترویج کے لیے بدخشان سے علماء کو چترال بلا کر یہاں آباد کیا۔ ان میں سے ایک عالم ملا دانشمند رستافی کا نام تاریخ میں ملتا ہے۔ اسے خاص چترال بشمول علاقہ کوہ کا قاضی مقرر کیا گیا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دور تک چترال سے برینس تک اسلام مکمل طور پر پھیل چکا تھا۔
شاہ ناصر کے دور کا ایک اہم کام زیریں چترال کے علاقوں کو فتح کرنا ہے۔ یہ علاقہ مختلف کلاش سرداروں کے زیر نگیں تھا۔ اس فتح سے اس علاقے میں اسلام کی اشاعت کی راہ ہموار ہوئی اور اسلام بتدریج اس خطے میں پھیلنے لگا۔ یہاں تک کہ موجودہ دور میں بمبوریت، بریر اور رومبور کی وادیوں کے سوا کلاش مذہب کا نام و نشان نہیں ملتا۔
جنوب میں گبرونگ کے علاقے کے لوگ غالباً افغانوں کے زیر اثر پہلے مسلمان ہوئے۔ شاہ محمد شفیع کی ایک سند میں ملا بابا آدم کو نرست کے علاقے کی زکواۃ جمع کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت یہ علاقہ مسلمان تھا۔
چترال میں اسماعیلی مذہب
چترال میں اسماعیلی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد سنیوں سے بہت کم ہے۔ اسماعیلی بیشتر مستوج اور لٹکوہ کی تحصیلوں میں رہتے ہیں۔ آج سے تقریباً سو سال پہلے تک تحصیل مستوج میں سنیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ لیکن آج اس علاقے میں ان کی قابل قدر تعداد بستی ہے۔
چترال اور گلگت میں اسماعیلی مذہب کے پیرو کار آج اس مذہب کی نئی شکل کی پر عمل کرتے ہیں جب کہ بدخشان، قولاب، درواز، شغنان، واخان، سیقول اور سنکیانگ میں یہ لوگ مذہب کی اس قدیم شکل پر عمل پیرا ہیں، جو حکیم ناصر خسرو (جنہیں یہاں پیر شاہ ناصر کہا جاتا ہے) سے منسوب ہے۔ اس طریقے میں امام کے نائبین پیر اور ان کے نائبین خلیفہ کہلاتے ہیں جو عموماً سید نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ناصر خسرو گیارہویں صدی عیسوی میں بدخشان کے درہ یمگان میں آکر مقیم ہوئے اور باقی ساری زندگی یہیں روپوشی میں گزاری۔ چترال کے اسماعیلیوں میں یہ روایت ہے کہ وہ چترال کے علاقے گرم چشمہ بھی آئے۔ اس جگہ ایک زیارت گاہ بھی ان سے منسوب ہے۔ لیکن ان کے سفر نامے میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ قیام یمگان کے دوران انہوں نے ارد گرد کے علاقوں میں دعوت کا ایک سلسلہ قائم کیا اور مختلف علاقوں میں داعی بھیجے۔ ان داعیوں کا سلسلہ نسل در نسل آگے چلا۔
شاہ ناصر رئیس کے دور میں ملک اژدر کے تین بیٹے سیرنگ، سورونگ اور یخشی گلگت کی طرف سے چترال کے علاقے میں آئے۔ یہ اس علاقے میں آنے والے اولیں اسماعیلی تھے۔ ان میں سے سورونگ لاسپور کے گاوں بروک میں قیام پذیر ہوا جب کہ یخشی اور سیرنگ سنوغر میں بس گئے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں یہاں کی آبادی بہت کم تھی۔ یہ تھوڑے سے لوگ قدیم مظاہر پرستانہ مذہب پر کاربند تھے۔ سیرنگ اور یخشی نے اپنے پیر شاہ محمد رضا کو اشکاشم سے بلایا اور وہ سنوغر میں ٹھہر گیا۔ ان کا تعلق ناصر خسرو کے سلسلے سے تھا۔ انہوں نے اس علاقے میں دعوت کا کام شروع کیا جس کے نتیجے میں قدیم مذہب کے ماننے والے اس کے پیرو کار بن گئے۔ اس علاقے میں ان کی اولاد نے بھی اسماعیلی دعوت کو جاری رکھا جس کے نتیجے میں اہل سنت سے تعلق رکھنے والے رضا خیل، خوشوقتے اور خوشآمدے خاندانوں کے ان افراد نے بھی، جو علاقہ بیار میں آباد تھے ، اسماعیلی مذہب قبول کر لیا۔
جہاں تک لٹکوہ میں اسماعیلیت کی اشاعت کا تعلق ہے، اس کا سہرا ان آباد کاروں کے سر ہے جو بدخشان کے علاقہ منجان سے یہاں آ کر آباد ہوئے۔ اس نسل کے لوگ اب بھی اس علاقے میں موجود ہیں اور یدغا زبان بولتے ہیں۔ اس علاقے کی وادی ارکاری میں اسماعیلی مذہب کی اشاعت میں شاہ نواز اول کے خاندان کا کردار اہم ہے۔ وہ زیباک کے میران کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ انہیں اس علاقے میں مذہبی پیشوائی بھی حاصل تھی، اس لیے انہیں پیر کہا جاتا ہے۔ ان کے بیٹے شاہ عبد الرحیم اول امام کی طرف سے زیباک، شاخدرہ اور اشکاشم کی پیشوائی پر مامور تھا۔ ان کے بعد ان کا بیٹا شاہ یاقوت مسند نشین ہوا۔ ایک روایت کے مطابق ہنزہ کا میر غضنفر انہی کے ہاتھوں اسماعیلی مذہب میں داخل ہوا۔ اس سے پہلے ان کا خاندان شعیہ تھا۔ شاہ یاقوت کا بیٹا شاہ پرتوی اور ان کا بیٹا شاہ عبد الرحیم ثانی بھی مسند پیری پر فائز رہے۔ اس سلسلے کے سارے پیروں نے لٹکوہ میں دعوت کا کام داعیوں کے ذریعے جاری رکھا۔ یہ داعی، جو عام طور پر سید ہوتے تھے، لٹکوہ میں آ کر قیام پذیر ہوئے۔ ان کے ہاتھوں لٹکوہ کی ساری آبادی قدیم مذہب کو چھوڑ کر اسماعیلی طریقے میں داخل ہو گئی۔
افغانستان کے امیر شیر علی کے عہد میں حالات کو نا موافق پا کر اس خاندان نے چترال کی طرف ہجرت کی۔ اس وقت کے مہتر امان الملک نے شاہ عبد الرحیم کو ارکاری اور ان کے بھایئوں کو چوئنج میں جائدادیں دے کر آباد کیا۔ نیز ان کے ساتھ رشتے بھی کیے جس کے نتیجے میں ان کی پوزیشن مستحکم ہو گئی اور وہ نہایت دلجمعی سے دعوت کا کام کرنے لگے۔
ایک اور خاندان شاہ اردبیل کا ہے جو اٹھارویں صدی کے وسط میں بدخشان سے آ کر حسن آباد شغور میں آباد ہوگیا۔ شاہ اردبیل کا بیٹا شاہ حسین اور ان کا بیٹا سید غلام علی تھا۔ اس خاندان کے مرید چترال کے علاوہ ہنزہ میں بھی موجود تھے۔ سید غلام علی شاہ کے بعد ان کے فرزند شاہ عبد الحسن پیر بنا۔ اس طرح یہ خاندان پانچ پشتوں تک دعوت کا کام کرتا رہا۔
اہل سادات میں سے ایک اور خاندان ریچ کا ہے۔ ان کا جد اعلیٰ شاہ محمد وصی رئیس دور میں چترال آیا۔ چترال آنے سے پہلے وہ یاسین میں ٹھہرا، اور یہیں شاہ بابر رئیس کی بہن سے شادی کر لی، جو شاہ ناصر رئیس کی طرف سے یہاں حکمران تھا۔ شاہ وصی ریچ میں مقیم ہوا اور یہیں فوت ہوا۔ ان کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ سنی المذہب تھے۔ تاہم اس سلسلے میں درج ذیل نکات قابل غور ہیں۔
۱۔ رئیس دور میں جتنے علماء سنی علماء باہر سے آئے، وہ خاص چترال اور اس کے نواح میں آباد ہوئے۔ جب کہ اسماعیلی داعی اور سادات باہر سے آ کر واخان اور بدخشان کی سرحدوں سے متصل علاقوں میں مقیم ہوتے رہے، تا کہ سرحد پار اسماعیلیوں کے ساتھ آسانی سے رابطہ رکھ سکیں
۲۔ چترال میں جتنے بھی سادات آئے وہ اسماعیلی دعوت سے منسلک تھے۔
۳۔ کسی بھی مذہبی شخصیت کی اولاد کا جائزہ لے کر ہم اس شخصیت کے مذہب کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ سادات ریچ کے بارے معلوم ہے کہ ان میں اب سے چار پانچ پشت پہلے تک کوئی سنی المذہب نہ تھا۔ یہ سب اسماعیلی تھے اور عموماً خلیفہ کا منصب اسی سلسلے کے سادات کے لیے مختص تھا۔ یہی لوگ نکاح، جنازہ، دعا اور چراغ روشن وغیرہ کی رسومات کی ادائیگی کے ذمہ دار تھے۔ 
ان حقائق کے پیش نظر یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ شاہ محمد وصی اسماعیلی داعی کی حیثیت سے آیا ہو گا۔ نیز یہ کہ تور کھو میں اسماعیلی مذہب کو پھیلانے میں ان اور ان کے خاندان کا کردار ہو سکتا ہے۔
چترال میں اسماعیلی مذہب کو پھیلانے کے سلسلے میں ایک اور نام پیر سید جلال کا بھی ہے۔ اس کے علاوہ یاسین، غذر اور پنیال میں اس مذہب کو پھیلانے میں سید اکبر شاہ کا نام لیا جاتا ہے، جن کی کوششوں سے اس علاقے کے لوگ شیعہ مذہب چھوڑ کر اسماعیلیت میں داخل ہوئے

Sunday, August 13, 2017

HOW TO GROW SAFFRON? WHAT IS SAFFRON in Urdu


HOW TO GROW SAFFRON?
WHAT IS SAFFRON in Urdu
زعفران کیا ہے؟
سیفران انگریزی میں جبکہ عربی اردو میں زعفران کہتے ہیں۔ ایک قیمتی مصالحہ یعنی سپائس ہے جو مختلف ادویات میں استعمال کیا جاتا ہے۔اور بذات خود بہت ساری بیماریوں اور پیچیدگیوں کا علاج ہے۔آج سے سو سال قبل زعفران کی فی تولہ قیمت سونے کی فی تولہ قیمت سے زیادہ تھی۔ہربل اور میڈیسنل پراڈکٹ کی وجہ سے دنیا بھر میں اس کی بہت مانگ ہے۔ایران، اسپین،آکلینڈ،نیدر لینڈ، انڈیا،برازیل، کشمیروغیرہ کے زعفران دنیا بھر میں پسند کئے جاتے ہیں۔ ایران اکیلا ایسا ملک ہے جو پوری دنیا کی نوے فیصد ضرورت پوری کررہا ہے۔ اور یہ ضرورت ایران کی چند ایک چھوٹے چھوٹے قصبے ہیں۔جنہوں نے زعفران کی کاشت پر توجہ دی ہے اور وہی لوگ پوری کررہے ہیں۔ یوں زعفران کی اہمیت اور فوائد انسانی زندگی کے لئے کلونجی کی مانند ہے۔ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ صرف سرد علاقوں میں کاشت کیا جاتا ہے۔ یہ دراصل سردیوں کا پودا ہے جو سردیاں شروع ہوتے ہی لگایا جاتا ہے اور آٹھ ہفتوں سے لیکر بارہ ہفتوں کے درمیان پھول آجاتے ہیں۔ طبی لحاظ سے زعفران کے بہت سارے فوائد ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اگر اسے اپنے معمولات کے کھانوں میں استعمال کرنا شروع کیا جائے تو بہت ساری بیماریوں سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتاہے۔اور سالانہ صحت کے مد میں اخراجات میں کافی حد تک کمی آسکتی ہے۔پاکستان میں اس کی کاشت۱۵اگست سے لیکر ۲۵اکتوبر تک کیا جاتا ہے۔ جن علاقوں میں اس دوران درجہ حرارت ۳۵ کے نیچے آنا شروع ہوجائے تب اسکو لگایا جاتا ہے۔ یعنی بعض علاقوں میں اگست میں جبکہ بعض علاقوں میں ستمبر یا اکتوبر میں لگایا جاتا ہے۔جن علاقوں میں۲۵اکتوبر تک بھی درجہ حرارت ۳۵کے نیچے نہ آئیں۔تو ان علاقوں میں نہیں لگانے چاہیئے۔جبکہ بعض لوگ اکتوبر کے آخر اور نومبر میں بھی لگا لیتے ہیں۔اور ان کے نتائج بھی اچھے آچکے ہیں۔ مگر بہتر یہی ہے کہ ۱۵اگست اور ۲۵ اکتوبر کے درمیانے عرصہ میں لگائیں۔ذہن نشین کرلیں کہ جب بھی آپ کے علاقہ کا درجہ حرارت ۱۵اگست اور۲۵اکتوبر کے درمیان ۳۵کے نیچے آنا شروع ہوجائے تو اس پودے کو لگایا جاسکتا ہے۔یعنی کہ سردیاں شروع ہوتے ہی لگایا جاتا ہے۔اگر پاکستان میں اس فصل کو فروغ دیا جائے تو ہمارے لاکھوں بے روزگار شہری لاکھوں کروڑوں روپے کما سکتے ہیں۔اور وطن عزیز کو زرمبادلہ کی صورت میں اربوں روپے کما کے دے سکتے ہیں۔
کاشت کرنے کا طریقہ:
زعفران کاشت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ایک حصہ مٹی،ایک حصہ گوبر کھاد اور ایک حصہ ریت آپس میں برابر مقدار میں چھان کر گملوں،فروٹ کے پلاسٹک کریٹ،گھی ڈبوں،کھیت ،کھیاری،باغیچہ یا کسی بھی زمیں میں لگایا جاسکتاہے۔اگر گملے یا کسی کنٹینر میں لگانے ہوں تو گملہ کے اندر چند ایک پتھر ڈال دیں تاکہ سوراخ مٹی سے بلاک نہ ہوں۔اور یہ ایک ویل ڈرینڈ پاٹ بن سکے۔مقصد یہ ہوتاہے کہ نکاس آب اچھے سے ہو۔کیونکہ زعفران کے پودے کے لئے زیادہ پانی کی ضرورت نہیں ہوتی۔مٹی کھاد اور ریت بھرنے کے بعد اگست ستمبر یا اکتوبر جس ماہ بھی درجہ حرارت۳۵کے نیچے آنا شروع ہو۔اس میں زعفران کاشت کئے جاتے ہیں۔جس طرح لہسن کا بلب دو یا ڈیڑھ انچ مٹی کے اندر اسطرح لگایا جاتا ہے کہ اس کے اوپر کی سطح مٹی سے باہر نظر آسکتا ہو اسی طرح زعفران کا بلب لگایا جاتاہے۔گملے کے ارد گرد اندر کی جانب تھوڑا سا پانی دیں تاکہ گملہ کے اندر مٹی میں نمی آسکے تاکہ بلب سرسبز ہونے مدد دے سکے۔ہر دوسرے تیسرے روز معائنہ کرلیں اگر پانی کی ضرورت محسوس ہو تو تھوڑا سا پانی اور دیں۔ پھولوں کے آنے تک پانی زیادہ دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ہفتہ دس دن بعد تھوڑا سا فوار یا شاور ہی کافی ہوتا ہے تاکہ مٹی نم رہے۔پھولوں کے آنے تک نم رکھیں زیادہ نمی بھی نقصان دہ ہوتی ہے۔اتنا پانی نہ دیں کہ جس سے گملے کے اندر کیچڑ پیدا ہو۔
کھیت میں لگانے کے لئے ضروری ہے کہ کھیت اس طرح ہموار کرنی چاہیئے کہ اس سے پانی کا اخراج آسانی سے ہو۔تاکہ پانی زیادہ دیر تک کھڑا نہ ہو ۔کھیت میں ہر چھ سے بارہ انچ قطاروں میں لگائیں۔تاکہ درمیان میں ایک بندہ آسانی سے گزر سکتا ہو۔درمیانی راستہ اگر ایک فٹ سے زیادہ رکھ لیں اور پودا چھ انچ کے فاصلے پر لگائے تو زیادہ بہتر ہوتاہے۔ویسے اس سے کم فاصلے پر بھی لگایا جاسکتاہے۔فاصلہ اگر زیادہ رکھ لیا جائے تو اس کا یہ فائدہوتاہے کہ زمین کے اندر بلب بڑے اور زیادہ پروڈیوس ہوتے ہیں۔اور زعفران کے بلب بھی کافی مہنگے ہیں۔آٹھ ہفتوں سے بارہ ہفتوں کے درمیان زعفران کا پودا پھول دیتاہے اور ہر پھول کے درمیان تین لال رنگ کے ریشے ہوتے ہیں جس کو سٹگما کہتے ہیں نکلتے ہیں۔ اور یہی زعفران کہلاتے ہیں۔ یعنی زعفران کے پھولوں کے اندر تین لال رنگ کے ریشوں کو کاٹ کر دس بارہ گھنٹے تک چھاوں میں سوکھا کر وہی زعفران کہلاتے ہیں جو مارکیٹ میں ۵۰۰ ۶۰۰    کا ایک گرام ملتاہے۔چھاوں میں اچھے سے سوکھانے سے سٹگماز کی لائف بڑھ جاتی ہے۔اور زیادہ عرصہ کے قابل استعمال ہوتے ہیں۔سٹگماز حاصل کرلینے کے بعد پودے کو اسی جگہ رہنے دیں۔ کیونکہ ایک پودے سے مزید بلب زمین کے اندر پروڈیوس ہوتے ہیں۔بعض علاقوں میں بلب ایک سال میں میچور ہوجاتے ہیں جبکہ بعض علاقوں میں دو سال میں یعنی جولائی اگست تک ۔جولائی اگست میں چاہیں تو بلب کو اکھاڑ کر دوسری جگوں پر لگائے جاتے ہیں یا اگر رہنے دیئے جائیں تو اس سے زیادہ پھولوں اور زیادہ سٹگماز پھولوں کے سیزن میں آئیں گے اور اگر اس کو تین چار سالوں تک ایک ہی جگہ پر رہنے دیا جائے اور دیکھ بھال کی جائے تو یہ گھاس کی طرح تین چار فٹ تک جگہ گھیر لیتی ہے۔ اگر ہر سال اکھاڑنا مقصود نہ ہوں تو لگاتے وقت زیادہ فاصلہ سے لگائیں۔ اور یاد رہے کہ پہلے سال اس سے ۴ سے ۸ تک بلب پروڈیوس ہونگے دوسرے سال ۴  ۸ کے تناسب سے مزید سٹگماز اور بلب پروڈیوس ہونگے۔ اور اسی طرح پہلے سال کی نسبت دوسرے تیسرے چوتھے پانچویں سال کی پروڈکشن میں اسی تناسب سےاضافہ ہوتا جائے گا۔
پانی:
زعفران کے پودے کو زیادہ پانی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہفتہ دس دن بعد ہلکا سا فوار یا شاور کافی ہوتا ہے۔بارش یا پانی آنے کی صورت میں کھیت یا گملے سے نکاس اچھے سے ہو۔ پھول چونکہ سردیوں آتے ہیں اس لئے زیادہ پانی کی ضرورت نہیں ہوتی جب سٹگماز حاصل کرلئے جاتے ہیں تو جنوری فروری میں ہلکا فوار اور اس کے بعد مارچ اپریل مئی جون جولائی تک پانی زیادہ مقدار میں دیا جاسکتاہے۔ کیونکہ اس دوران اس میں پھول نہیں لگتے بلکہ ساری محنت بلب کے حصول کے لئے کی جاتی ہے۔ کھیتوں میں لگانے کے لئے بیڈز بنائیں اور دونوں جانب نالے دیں تاکہ پانی کی نکاس اچھے سے اور جلدی ہو۔ اگر گملہ لگانا ہو تو پانی ہفتہ میں ایک بار شاور یا فوارے سے دیا کریں۔ زیادہ پانی دینے سے پودا خراب ہوسکتاہے۔ کھیت میں پانی دینے کے لئے ضروری ہے کہ چیک کیا جائے کہ کھیتی میں زیادہ نمی نہ ہو۔ یعنی دس پندرہ دنوں میں درکار ہوتا ہے۔ اور نکاسی اچھے سے ہو پانی کھڑا ہونے نہ دیں۔
مارکیٹ:
پاکستان میں بہت سارے ہربل مینوفیکچررز کمپنیاں موجود ہیں، اس کے علاوہ دواخانے، حکیم صاحبان، پنسار سٹورز حضرات اور بہت سے دواساز کمپنیاں موجود ہیں۔ جن کے مصنوعات میں زعفران ایک اہم جز ہوتا ہے۔ اور یہی لوگ اربوں روپے کے زعفران باہر ممالک سے ایمپورٹ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بڑے شہروں میں زعفران پیکنگ کمپنیاں ہیں جو آن لائن اور آف لائن زعفران کو پیک کرکے اندرون و بیرون ملک سیل کرتے ہیں۔ زعفران کے عادی افراد کی تعداد میں بھی روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ اگر پاکستان میں اس کی کاشت توجہ دی گئی تو انشا ء اللہ وہ دن دور نہیں کہ ہمارا ملک بھی ایران کی طرح ایک بڑا ایکسپورٹر بن جا ئے گا۔ انشاء اللہ
احتیاطی تدابیر:
بلب لگاتےوقت اور پھولوں کے آنے تک سوئل نم رکھیں۔
زیادہ پانی دینے سے گریز کریں۔
بلب اکھاڑتے وقت سوئل کو خشک رکھیں۔
نکاس آب کا خاص خیال رکھیں۔
خرگوش، چوہے،بچے پرندے اور چوروں کی پہنچ سے دور رکھیں۔
اس پودے میں بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت زیادہ ہوتی ہے۔ اگر کوئی بیماری آ بھی جائے تو وہی اسپرے دوا استعمال کرے تو عام  پھولوں پودوں کی بیماریوں کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔فاضل جڑی بوٹیوں کو پودے کے آس پاس نہ چھوڑیں۔ اور گوڈی باقاعدگی سے ضروری ہے۔
آمدن:
زعفران سے تین قسم کی آمدن حاصل کی جاسکتی ہے۔
سٹگماز:
سٹگماز فی گرام ۵۰۰  ۶۰۰ روپے مارکیٹ ملتا ہے۔ بلکہ بعض حضرات تو اسپینش ،کشمیری ،ایرانی کے نام پر ایک ہزار بارہ سو روپے پر بھی فروخت کرتے ہیں۔
بلب:
ایک پودے سے سال دو سال میں مزید چار سے آٹھ تک بلب پروڈیوس ہوتے ہیں۔ ایک کنال میں بارہ ہزار پودے لگائے جاتے ہیں۔ اگر اوسط بلب پروڈکشن پانچ بھی ہو تو کنال سے ساٹھ ہزار تک بلب پروڈیوس ہوتے ہیں جو آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
زعفرانی شہد:
جب پودے میں پھول اور سٹگماز آجاتے ہیں تو اس دوران شہد کی مکھیوں کی پیٹیاں رکھی جاتی ہیں۔ جس سے حاصل ہونے والا شہد ستر ہزار روپے سے لیکر نورے ہزار روپے فی کلو مارکیٹ میں ملتا ہے۔ دوبئی میں پچیس سو درہم سے لیکر تین ہزار درہم کا ایک کلو ملتاہے۔ جو زیادہ تر طبی ماہرین پانچ سو سے زیادہ بیماریوں کا علاج سمجھتے ہیں۔
کوالٹی:
اسپین، ایران اور کشمیری زعفران دنیا بھر میں کافی مشہور ہیں۔ اکثر لوگ اسپینش زعفران یا انڈین کشمیری زعفران کو بہت اعلی معیار کا مانتے ہیں۔دراصل زعفران کا معیار ایک ہی ہوتاہے۔ قدرت نے وہ تمام صفات اس میں رکھی ہیں۔ جو صفات اسپینش یا کشمیری میں ہیں وہی صفات ایرانی زعفران میں بھی ہیں۔ اسپینش زعفران یا کشمیری سرد علاقوں کا زعفران ہے جسے بہت محنت کے ساتھ شدید برفباری اور سردی میں تیار کیا جاتاہے۔ یورپ میں اسی محنت کو دیکھ کر معاوضہ طے کیا گیا ہے اس لئے اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ اسپینش زعفران زیادہ معیاری اور مہنگے ہوتے ہیں۔ ٹماٹر چاہے تین ڈالر کلو ہو یا پانچ ریال یا درہم یا تیس روپے کلو ۔غذائیت، سرخی،ترشی وہی ہوتی ہے جو کھانے کو خوش ذائقہ بنانے کے کام آتی ہے۔
سٹگماز اور بلب کو محفوظ رکھنا:
سٹگماز کو پھولوں سے الگ کرکے کسی صاف کپڑے یا کاغذ پر ایسی جگہ رکھیں جہاں پر تیز ہوا نہ چلتی ہو تاکہ یہ بکھر نہ جائیں دس بارہ گھنٹے چھاوں یعنی سایہ میں کسی کمرے یا برآمدے میں سوکھایا جاتا ہے جتنا اچھے سے سوکھائے جائیں گے۔ اتنی ہی اس کی لائف زیادہ ہوگی۔ سوکھانے کے بعد ائیر ٹائیٹ جار،بوتل،پاٹ،شیشہ میں محفوظ کر لئے جاتے ہیں۔
بلب کو محفوظ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہوادار جگہ پر رکھے جائیں۔ اور ہفتہ دس دن بعد معائنہ کرکے صاف کئے جائیں تاکہ اس میں کوئی خرابی نہ آسکے۔ یا آسان الفاظ میں جس طرح لہسن یا پیاز کے بلب کو محفوظ کیا جاتا ہے۔اسی طرح زعفران کے بلب بھی محفوظ کئے جاتے ہیں۔ تاکہ یہ سیزن میں لگانے کے کام آسکے۔

زعفران کی کاشت اور اسکی پہچان








🌼🌼🌼بسم اللّٰہِ الرّحمٰن الرَّحیم🌼🌼🌼
زعفران کی کاشت :: سلسلہ نمبر 2

***زعفران کے  بلب (بیج) : اصلی اور نقلی کی پہچان***

مارکیٹ میں ایسے زعفران کے بلب بھی موجود ہیں جو غیر معیاری ہوتے ہیں۔ اور پاکستان کے موسم کے مواقف نہیں ہوتے لہذا ان کے لگانے پہ اپنا قیمتی وقت اور پیسہ ضائع نہ کرے۔اکثر لوگ کم پیسوں کا لالچ کرکے لگا بھی دیتے ہیں مگر ان پھول نہیں آتے اور ان کا وقت اور پیسہ ضائع ہوجاتا ہے۔
------------------------------------------
بلب (بیج) ::
کاشت اور اچھی پیداوار کیلئے بلب (بیج) اچھے میعار کا ہونا چاہیے۔ تاکہ اچھے نتائج حاصل کیے جا سکیں۔
بلب(بیج)  اچھی ورائٹی کا ہو۔ پاکستان کی آب و ہوا کیمطابق ہو۔ بلب (بیج ) اچھے سائز کا ہو۔ چھوٹے اور متاثرہ بلب (بیج ) سے اچھی پیداوار ممکن نہیں۔
چھ سے سات گرم کے بلب (بیج) سے اچھی پیداوار  ممکن ہے۔
نیچے دی گئی بلب کی تصاویر ملاحظہ فرمائیں ۔
------------------------------------------
زعفران کا پودا ::
اس کا پودا پنتالیس سینٹی میٹر ہوتا ہے اور یہ پیاز سے ملتا جلتا ہے
زعفران کے کچھ باريک پتے ہيں، پتوں کے بيچ ميں زعفران کا تنا ہے جس پر پھول بن جاتا ہے ، اور ہر تنے کے اوپر ايک سے تين تک پھول بن جاتے ہيں- زعفران کے پھول وايليٹ ہيں اور ہر پھول کي چھ پھول کي پتيوں کي ہيں-
------------------------------------------
زعفران ::
زعفران کے پودے میں پھولوں سے زعفران حاصل یا جاتا ہے یہ چھوٹی چھوٹی کونپل نما جو ریشے کی مانند مالٹا رنگ کی ہوتی ہیں۔ بعد میں ان کونپلوں یا ریشوں کو خشک کر لیا جاتا ہے۔ بس زعفران تیار
=================================

یہ قرآن پاک 1100 سو سال پرانا ہے




                              ڈیرہ غازی خان
یہ قرآن پاک ڈیرہ غازی خان کے بلاک نمبر 4 کی جامع مسجد میں رکھا ہوا ہے جوکہ قریب 1100 سال پرانا ہے۔
 سبحان اللہ۔
اسکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ قرآن پاک کسی تابعی کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔
ڈیرہ غازی خان کی اس مسجد میں یہ قرآن پاک قریب 1908 میں لایا گیا تھا جو کہ الحمداللہ اب بھی کافی حد تک بہتر حالت میں ہے۔
اسکو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں۔
تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کی زیارت کر سکیں ۔
۔ ۔ ۔ جزاک اللہ ۔ ۔ ۔
نوٹ:
         یہ قرآن پاک سال میں صرف ایک مرتبہ رمضان کے آخری جمعتہ المبارک کو زیارت کے لیے کھولا جاتا ہے۔

مرغیوں کی کالی سیاہ نایاب نس



ایام سمانی ۔ مرغیوں کی کالی سیاہ نایاب نسل۔۔۔۔۔ ۔
انڈونیشیا اور تھالینڈ میں کالی مرغیوں کی ایک نایاب نسل پائی جاتی ھے۔ جسے وہاں کی مقامی زبان میں ۔ ایام سمانی ۔ کہاجاتا ھ ۔ ایام مرغی کو کہتےہیں اور سمانی کا مطلب کالا سیاہ ہوتا ھ ۔ ان حیرت انگیز مرغیوں کا گوشت بھی کالا ہوتا ھ ۔ انکے انڈے بھی کالے سیاہ اور انڈوں کے اندر موجود زردی بھی زرد نہیں بلکہ کالی ہوتی ھ ۔ اس اعتبار سے اسے زردی کے بجائے کلدی کہنا زیادہ مناسب ہوگا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہتےہیں اس کالی مرغی کی یخنی پی لینے والا انسان کبھی بیمار نہیں پڑتا ۔ اسکے بال کبھی سفید نہیں ہوتے ۔ کبھی گنجا نہیں ہوتا ۔ جسمانی کمزوری اور تقابت اسکے قریب سے نہیں گزرتی ۔ ہمیشہ توانا خوش و خرم اور متحرک رہتا ھے.
چنانچہ ۔ یہ مرغی سست الوجود اور کاہل انسان کیلئے اکسیر کا درجہ رکھتی ھے..

We friends star: پہلے چار دفعہ مختلف گھروں کے لڑکے اس رشتے سے رد کر...

We friends star: پہلے چار دفعہ مختلف گھروں کے لڑکے اس رشتے سے رد کر...: اس سے پہلے چار دفعہ مختلف گھروں کے لڑکے اس رشتے سے رد کر چکے تھے  یہ پانچویں بار تھی وہ اپنی دوست کو میسج پر بتا رہی تھی کے آج پھر لڑکے و...

خواتین متوجہ ہوں

                    خواتین متوجہ ہوں
برائے مہربانی ضرور پڑهئیے
جب ہم ٹائلٹ. باتھ رومز ، ہوٹل کے کمرے ، کپڑے تبدیل کرنے کی جگہ جاتے ہیں
تو ہمیں کس طرح پتا چلے کہ دیوار پر لٹکا بظاہر عام شیشہ هے یا ایسا شیشہ هے کہ آپ کی طرف آپ کو اپنا عکس نظر آ رہا هے اور دوسری طرف آپ کو کوئی دیکھ رہا هے جس میں سے وہ آپ کی تصویر یا ویڈیو بنا سکتا هے.
یعنی ڈبل سائیڈ والا شیشہ
اس بات کا یقین آپ محض دیکھ کر نہیں کر سکتے
ایسے بہت سے معاملات منظر پر آ چکے ہیں
اپنے آپ کو محفوظ اس سادہ ٹیسٹ سے کریں ..
شیشے پر اپنے ناخن کی نوک رکھ کر دیکهئیے آگر ناخن کی نوک اور عکس کے درمیان فاصلہ هے تو یہ ایک حقیقی عام شیشہ هے
اگر
آپ کے ناخن کی نوک اور عکس میں فاصلہ نہیں تو اس سے بچیئے . یہ ایک دو راستہ شیشہ هے اور آپ کو دوسری طرف سے دیکھا جا رہا هے
فاصلہ نہیں تو جگہ چهوڑ دیجیئے
آپ کو جب بھی اس کے بارے میں یقین نہ ہو ناخن والا ٹیسٹ کیجیئیے

Saturday, August 12, 2017

پہلے چار دفعہ مختلف گھروں کے لڑکے اس رشتے سے رد کر چکے تھے

اس سے پہلے چار دفعہ مختلف گھروں کے لڑکے اس رشتے سے رد کر چکے تھے  یہ پانچویں بار تھی وہ اپنی دوست کو میسج پر بتا رہی تھی کے آج پھر لڑکے والے دیکھنے آ رہے ہیں دعا کرنا انہیں میں پسند آ جاؤں مجھ سے اب بابا کے چہرے پر جھریاں نہیں دیکھی جاتی ہیں نہ جانے انہوں نے ایسا کیا گناہ کیا تھا کے میں ان پر بوجھ بنی ہوئی ہوں.
اب تو ماں کے ہاتھ بھی کانپتے ہیں اس مشین کو چلا چلا کر انہوں نے آج تک میرے لیے بہت کچھ بنایا لیکن قسمت پتہ نہیں کیا امتحان لے رہی ہے.
شام کے وقت وہ اپنے کمرے میں بیٹھی یہی دعا مانگ رہی تھی کے میرے بابا کی عزت بچ جائے کہیں وہ پھر سے یہی نہ سوچیں کے بیٹی کیا پیدا کر لی عذاب میں پڑ گئے ہم تو.
اور وہی ہوا آنے والوں نے نہیں پوچھا کے:
 آپ کی بیٹی نماز پڑھتی ہے یا نہیں..!
انہوں نے نہیں پوچھا کے کیا دین کے لیے کبھی کسی مدرسے میں گئی یا نہیں...!
یا کتنا پڑھا دین کا...!
انہوں نے نہیں پوچھا دنیا کا کتنا پڑھا سکول کتنا پڑھا...!
. انہوں نے نہیں پوچھا کے بیٹی کیا دو وقت کا کھانا بنا کر اپنے شوہر کو اور ہمیں دے سکتی ہے یا نہیں...!
بلکہ صاحبزادے جو کے ایک طرف کرسی پر ٹانگ رکھے بیٹھے تھے انہوں نے ماں کو اشارہ کیا ماں نے بھی کہہ دیا بیٹی کو بلایے...
 اندر سے لڑکی کو لے کر اُس کی ماں باہر آئی یہاں شہزادہ چارلس صاحب منہ اٹھایا اور باہر چلے گئے...
لڑکے کی ماں پیچھے گئی بیٹا کیا بات ہے یہاں اندر لڑکی اور اس کے ماں باپ سن رہے ہیں.....
مجھے نہیں کرنی اس سے شادی شکل تو دیکھیں اس کی یہ بھی کوئی لڑکی ہے.
لڑکے کا والد معزرت کرتا ہوا وہاں سے اٹھا اور اِدھر لڑکی وہاں سے اٹھی اور بھاگتی ہوئی اپنے کمرے میں جا کر دروازہ بند کر دیا.
تین دن کمرے کے ایک کونے میں وہ گھٹ گھٹ کر مرتی رہی اور آخر کار چوتھے دن گولیوں کا ایک پیکٹ اپنے اندر ڈال کر وہ اس معاشرے سے خود کو الگ کرنے کے لیے سکون کی نیند تلاش کرنے چلی گئی.
اب میرا سوال ہے کے کیا اسے اُس کے حسن نے مارا ہے؟
یا اُس پانچویں شخص نے مارا ہے.؟
یا اُن تمام لوگوں نے جو اس سے پہلے آ چکے تھے.؟
میں بتاتا ہوں.....! لعنت بھیجتا ہوں میں اس گندے معاشرے پر جس نے اسے مارا ہے لوگوں کی بیٹیوں کو ایسے دیکھنے جاتے ہو جیسے کے کسی باغ کا بیوپاری جاتا ہے باغ اچھا لگا تو ٹھیک ورنہ کوئی اور لے لوں گا.
آپ میں ہم وہ تکلیف نہیں محسوس کر سکتے ہیں جو ایک باپ کے سینے میں لگی ہوتی ہے ایک ماں کا کلیجہ جب پھٹ رہا ہوتا ہے اور جب اُس کی آنکھیں خون بہا رہی ہوتی ہیں.
جب کسی کی بہن بیٹی کو دیکھنے جاؤ تو اسے شکل سے نہ دیکھو... بلکہ والدین سے پوچھو کے کیا وہ دین جانتی ہے... کیا وہ میری ماں کو ماں سمجھنے کے قابل ہے...
کیا وہ دو وقت کا کھانا مجھے اور میرے ماں باپ کو دے سکتی ہے.
اور اگر حسن چاہیے ہے تو  میں آپ کو ایک مشورہ دیتا ہے جاؤ مغرب میں وہاں حسن ہے اور وہاں حسن ملے گا بھی باقی حیا شرم دین اُن کے قریب سے بھی نہیں گزرا ہو گا اور ویسے بھی تمہیں کون سا حیا شرم یا دین چاہیے ہے.
زرا سوچو گھر میں جو بہن ہے اسے پانچ دفعہ کوئی دیکھنے آئے اور پانچویں دفعہ بھی کہے نہیں مجھے نہیں یہ پسند تو تم پر قیامت گزرتی ہے اور تمہیں یاد بھی ہے خود کتنی بیٹیوں پر قیامت گرا چکے ہو.
یقین مانیے ہمیں پتہ بھی نہیں ہوتا کے کہیں ہماری وجہ سے کسی گھر میں کتنا بڑا فساد کتنا بڑا دُکھ جنم لے چُکا ہے.
حُسن نہ دیکھیے کسی کی عزت دیکھیے. کیا فائدہ اگر حُسن ملے اور عزت نہ ہو بے عزتے لوگ ہوں حیا نہ ہو دین نہ ہو.. لعنت نہ بھیجوں میں ایسے لوگوں پر.
اور کیا ہی زندگی ہو کے سادہ چہرہ ہی کیوں نہ ہو دین ہو عزت دار لوگ ہوں حیا ہو اور دین ہو.
یہ بیٹیاں اپنی خوشی سے زیادہ اپنے باپ کے دُکھ میں مر رہی ہوتی ہیں کے کہیں میرا والد یا میری والدہ مجھ سے مایوس تو نہیں
لوگوں میں حیا شرم اور دین دیکھو...حسن نہیں..!!
یہ سچائی اگر کسی کو بُری لگی ہو تو معزرت وسلام ۔۔۔

Friday, August 11, 2017

Panjap ke shahir Gujranwala mien ek huqim Howa krta Tha..

پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں ایک حکیم صاحب ہوا کرتے تھے، جن کا مطب ایک پرانی سی عمارت میں ہوتا تھا۔ حکیم صاحب روزانہ صبح مطب جانے سے قبل بیوی کو کہتے کہ جو کچھ آج کے دن کے لیے تم کو درکار ہے ایک چٹ پر لکھ کر دے دو۔ بیوی لکھ کر دے دیتی۔ آپ دکان پر آ کر سب سے پہلے وہ چٹ کھولتے۔ بیوی نے جو چیزیں لکھی ہوتیں۔ اُن کے سامنے اُن چیزوں کی قیمت درج کرتے، پھر اُن کا ٹوٹل کرتے۔ پھر اللہ سے دعا کرتے کہ یااللہ! میں صرف تیرے ہی حکم کی تعمیل میں تیری عبادت چھوڑ کر یہاں دنیا داری کے چکروں میں آ بیٹھا ہوں۔ جوں ہی تو میری آج کی مطلوبہ رقم کا بندوبست کر دے گا۔ میں اُسی وقت یہاں سے اُٹھ جائوں گا اور پھر یہی ہوتا۔ کبھی صبح کے ساڑھے نو، کبھی دس بجے حکیم صاحب مریضوں سے فارغ ہو کر واپس اپنے گائوں چلے جاتے۔
ایک دن حکیم صاحب نے دکان کھولی۔ رقم کا حساب لگانے کے لیے چِٹ کھولی تو وہ چِٹ کو دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ گئے۔ ایک مرتبہ تو ان کا دماغ گھوم گیا۔ اُن کو اپنی آنکھوں کے سامنے تارے چمکتے ہوئے نظر آ رہے تھے لیکن جلد ہی انھوں نے اپنے اعصاب پر قابو پا لیا۔ آٹے دال وغیرہ کے بعد بیگم نے لکھا تھا، بیٹی کے جہیز کا سامان۔ کچھ دیر سوچتے رہے پھشکر۔‘‘ چیزوں کی قیمت لکھنے کے بعد جہیز کے سامنے لکھا ’’یہ اللہ کا کام ہے اللہ جانے۔‘‘
ایک دو مریض آئے ہوئے تھے۔ اُن کو حکیم صاحب دوائی دے رہے تھے۔ اسی دوران ایک بڑی سی کار اُن کے مطب کے سامنے آ کر رکی۔ حکیم صاحب نے کار یا صاحبِ کار کو کوئی خاص توجہ نہ دی کیونکہ کئی کاروں والے ان کے پاس آتے رہتے تھے۔
دونوں مریض دوائی لے کر چلے گئے۔ وہ سوٹڈبوٹڈ صاحب کار سے باہر نکلے اور سلام کرکے بنچ پر بیٹھ گئے۔ حکیم صاحب نے کہا کہ اگر آپ نے اپنے لیے دوائی لینی ہے تو ادھر سٹول پر آجائیں تاکہ میں آپ کی نبض دیکھ لوں اور اگر کسی مریض کی دوائی لے کر جانی ہے تو بیماری کی کیفیت بیان کریں۔
وہ صاحب کہنے لگے حکیم صاحب میرا خیال ہے آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔ لیکن آپ مجھے پہچان بھی کیسے سکتے ہیں؟ کیونکہ میں ۱۵، ۱۶ سال بعد آپ کے مطب میں داخل ہوا ہوں۔ آپ کو گزشتہ ملاقات کا احوال سناتا ہوں پھر آپ کو ساری بات یاد آجائے گی۔ جب میں پہلی مرتبہ یہاں آیا تھا تو وہ میں خود نہیں آیا تھا۔ خدا مجھے آپ کے پاس لے آیا تھا کیونکہ خدا کو مجھ پر رحم آگیا تھا اور وہ میرا گھر آباد کرنا چاہتا تھا۔ ہوا اس طرح تھا کہ میں لاہور سے میرپور اپنی کار میں اپنے آبائی گھر جا رہا تھا۔ عین آپ کی دکان کے سامنے ہماری کار پنکچر ہو گئی۔
ڈرائیور کار کا پہیہ اتار کر پنکچر لگوانے چلا گیا۔ آپ نے دیکھا کہ میں گرمی میں کار کے پاس کھڑا ہوں۔ آپ میرے پاس آئے اور آپ نے مطب کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ ادھر آ کر کرسی پر بیٹھ جائیں۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ میں نے آپ کا شکریہ ادا کیا اور کرسی پر آ کر بیٹھ گیا۔
ڈرائیور نے کچھ زیادہ ہی دیر لگا دی تھی۔ ایک چھوٹی سی بچی بھی یہاں آپ کی میز کے پاس کھڑی تھی اور بار بار کہہ رہی تھی ’’چلیں ناں، مجھے بھوک لگی ہے۔ آپ اُسے کہہ رہے تھے بیٹی تھوڑا صبر کرو ابھی چلتے ہیں۔
میں نے یہ سوچ کر کہ اتنی دیر سے آپ کے پاس بیٹھا ہوں۔ مجھے کوئی دوائی آپ سے خریدنی چاہیے تاکہ آپ میرے بیٹھنے کو زیادہ محسوس نہ کریں۔ میں نے کہا حکیم صاحب میں ۵،۶ سال سے انگلینڈ میں ہوتا ہوں۔ انگلینڈ جانے سے قبل میری شادی ہو گئی تھی لیکن ابھی تک اولاد کی نعمت سے محروم ہوں۔ یہاں بھی بہت علاج کیا اور وہاں انگلینڈ میں بھی لیکن ابھی قسمت میں مایوسی کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا۔
آپ نے کہا میرے بھائی! توبہ استغفار پڑھو۔ خدارا اپنے خدا سے مایوس نہ ہو۔ یاد رکھو! اُس کے خزانے میں کسی شے کی کمی نہیں۔ اولاد، مال و اسباب اور غمی خوشی، زندگی موت ہر چیز اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ کسی حکیم یا ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفا نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی دوا میں شفا ہوتی ہے۔ شفا اگر ہونی ہے تو اللہ کے حکم سے ہونی ہے۔ اولاد دینی ہے تو اُسی نے دینی ہے۔
مجھے یاد ہے آپ باتیں کرتے جا رہے اور ساتھ ساتھ پڑیاں بنا رہے تھے۔ تمام دوائیاں آپ نے ۲ حصوں میں تقسیم کر کے ۲ لفافوں میں ڈالیں۔ پھر مجھ سے پوچھا کہ آپ کا نام کیا ہے؟ میں نے بتایا کہ میرا نام محمد علی ہے۔ آپ نے ایک لفافہ پر محمدعلی اور دوسرے پر بیگم محمدعلی لکھا۔ پھر دونوں لفافے ایک بڑے لفافہ میں ڈال کر دوائی استعمال کرنے کا طریقہ بتایا۔ میں نے بے دلی سے دوائی لے لی کیونکہ میں تو صرف کچھ رقم آپ کو دینا چاہتا تھا۔ لیکن جب دوائی لینے کے بعد میں نے پوچھا کتنے پیسے؟ آپ نے کہا بس ٹھیک ہے۔ میں نے زیادہ زور ڈالا، تو آپ نے کہا کہ آج کا کھاتہ بند ہو گیا ہے۔
میں نے کہا مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی۔ اسی دوران وہاں ایک اور آدمی آچکا تھا۔ اُس نے مجھے بتایا کہ کھاتہ بند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آج کے گھریلو اخراجات کے لیے جتنی رقم حکیم صاحب نے اللہ سے مانگی تھی وہ اللہ نے دے دی ہے۔ مزید رقم وہ نہیں لے سکتے۔ میں کچھ حیران ہوا اور کچھ دل میں شرمندہ ہوا کہ میرے کتنے گھٹیا خیالات تھے اور یہ سادہ سا حکیم کتنا عظیم انسان ہے۔ میں نے جب گھر جا کربیوی کو دوائیاں دکھائیں اور ساری بات بتائی تو بے اختیار اُس کے منہ سے نکلا وہ انسان نہیں کوئی فرشتہ ہے اور اُس کی دی ہوئی ادویات ہمارے من کی مراد پوری کرنے کا باعث بنیں گی۔ حکیم صاحب آج میرے گھر میں تین پھول اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔
ہم میاں بیوی ہر وقت آپ کے لیے دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ جب بھی پاکستان چھٹی آیا۔ کار اِدھر روکی لیکن دکان کو بند پایا۔ میں کل دوپہر بھی آیا تھا۔ آپ کا مطب بند تھا۔ ایک آدمی پاس ہی کھڑا ہوا تھا۔ اُس نے کہا کہ اگر آپ کو حکیم صاحب سے ملنا ہے تو آپ صبح ۹ بجے لازماً پہنچ جائیں ورنہ اُن کے ملنے کی کوئی گارنٹی نہیں۔ اس لیے آج میں سویرے سویرے آپ کے پاس آگیا ہوں۔
محمدعلی نے کہا کہ جب ۱۵ سال قبل میں نے یہاں آپ کے مطب میں آپ کی چھوٹی سی بیٹی دیکھی تھی تو میں نے بتایا تھا کہ اس کو دیکھ کر مجھے اپنی بھانجی یاد آرہی ہے۔
حکیم صاحب ہمارا سارا خاندان انگلینڈ سیٹل ہو چکا ہے۔ صرف ہماری ایک بیوہ بہن اپنی بیٹی کے ساتھ پاکستان میں رہتی ہے۔ ہماری بھانجی کی شادی اس ماہ کی ۲۱ تاریخ کو ہونا تھی۔ اس بھانجی کی شادی کا سارا خرچ میں نے اپنے ذمہ لیا تھا۔ ۱۰ دن قبل اسی کار میں اسے میں نے لاہور اپنے رشتہ داروں کے پاس بھیجا کہ شادی کے لیے اپنی مرضی کی جو چیز چاہے خرید لے۔ اسے لاہور جاتے ہی بخار ہوگیا لیکن اس نے کسی کو نہ بتایا۔ بخار کی گولیاں ڈسپرین وغیرہ کھاتی اور بازاروں میں پھرتی رہی۔ بازار میں پھرتے پھرتے اچانک بے ہوش ہو کر گری۔ وہاں سے اسے ہسپتال لے گئے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ اس کو ۱۰۶ ڈگری بخار ہے اور یہ گردن توڑ بخار ہے۔ وہ بے ہوشی کے عالم ہی میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئی۔
اُس کے فوت ہوتے ہی نجانے کیوں مجھے اور میری بیوی کو آپ کی بیٹی کا خیال آیا۔ ہم میاں بیوی نے اور ہماری تمام فیملی نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنی بھانجی کا تمام جہیز کا سامان آپ کے ہاں پہنچا دیں گے۔ شادی جلد ہو تو اس کا بندوبست خود کریں گے اور اگر ابھی کچھ دیر ہے تو تمام اخراجات کے لیے رقم آپ کو نقد پہنچا دیں گے۔ آپ نے ناں نہیں کرنی۔ آپ اپنا گھر دکھا دیں تاکہ سامان کا ٹرک وہاں پہنچایا جا سکے۔
حکیم صاحب حیران و پریشان یوں گویا ہوئے ’’محمدعلی صاحب آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں مجھے سمجھ نہیں آرہا، میرا اتنا دماغ نہیں ہے۔ میں نے تو آج صبح جب بیوی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی چِٹ یہاں آ کر کھول کر دیکھی تو مرچ مسالہ کے بعد جب میں نے یہ الفاظ پڑھے ’’بیٹی کے جہیز کا سامان‘‘ تو آپ کو معلوم ہے میں نے کیا لکھا۔ آپ خود یہ چِٹ ذرا دیکھیں۔ محمدعلی صاحب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ’’بیٹی کے جہیز‘‘ کے سامنے لکھا ہوا تھا ’’یہ کام اللہ کا ہے، اللہ جانے۔‘‘
محمد علی صاحب یقین کریں، آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ بیوی نے چِٹ پر چیز لکھی ہو اور مولا نے اُس کا اسی دن بندوبست نہ کردیا ہو۔ واہ مولا واہ۔ تو عظیم ہے تو کریم ہے۔ آپ کی بھانجی کی وفات کا صدمہ ہے لیکن اُس کی قدرت پر حیران ہوں کہ وہ کس طرح اپنے معجزے دکھاتا ہے۔
حکیم صاحب نے کہا جب سے ہوش سنبھالا ایک ہی سبق پڑھا کہ صبح ورد کرنا ہے ’’رازق، رازق، تو ہی رازق‘‘ اور شام کو ’’شکر، شکر مولا تیرا شکر... اگر آپکو یہ تحریر اچهی لگے تو اس کو اپنی خوبصورت وال پہ جگہ ضرور دے. ایک شیئر پہ آپکے دو تین سیکند لگے گے

مزید معلومات کے لئے میرا پیج لازمی لائک کریں ۔جزاک اللّه

Thursday, August 10, 2017

Dr. Ruth Katherina Marth، فخر پاکستان، ڈاکٹر روتھ فاؤ کی کتھا

                                        یہ خاتون جرمنی کے شہر لائزگ کی رھنے والی تھی۔

پیشے کے لحاظ سے یہ ڈاکٹر تھیں۔

سن 1958ء کی بات ھے اس خاتون نے 30 سال کی عمر میں پاکستان میں کوڑھ (جزام) کے مریضوں کے بارے میں ایک فلم دیکھی‘ کوڑھ اچھوت مرض ہے جس میں مریض کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ہے‘ جسم میں پیپ پڑجاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی انسان کا گوشت ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گرنے لگتا ہے‘ کوڑھی کے جسم سے شدید بو بھی آتی ہے‘ کوڑھی اپنے اعضاء کو بچانے کے لیے ہاتھوں‘ ٹانگوں اور منہ کو کپڑے کی بڑی بڑی پٹیوں میں لپیٹ کر رکھتے ہیں‘ یہ مرض لا علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ جس انسان کو کوڑھ لاحق ہو جاتا تھا اسے شہر سے باہر پھینک دیا جاتا تھا اور وہ ویرانوں میں سسک سسک کر دم توڑ دیتا تھا۔

پاکستان میں 1960ء تک کوڑھ کے ہزاروں مریض موجود تھے‘ یہ مرض تیزی سے پھیل بھی رہا تھا‘ ملک کے مختلف مخیرحضرات نے کوڑھیوں کے لیے شہروں سے باہر رہائش گاہیں تعمیر کرا دی تھیں‘ یہ رہائش گاہیں کوڑھی احاطے کہلاتی تھیں‘ لوگ آنکھ‘ منہ اور ناک لپیٹ کر ان احاطوں کے قریب سے گزرتے تھے‘ لوگ مریضوں کے لیے کھانا دیواروں کے باہر سے اندر پھینک دیتے تھے اور یہ بیچارے مٹی اورکیچڑ میں لتھڑی ہوئی روٹیاں جھاڑ کر کھا لیتے تھے‘ ملک کے قریباً تمام شہروں میں کوڑھی احاطے تھے‘ پاکستان میں کوڑھ کو ناقابل علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ کوڑھ یا جزام کے شکار مریض کے پاس دو آپشن ہوتے تھے‘ یہ سسک کر جان دے دے یا خود کشی کر لے۔

یہ انتہائی جاذب نظر اور توانائی سے بھر پور عورت تھی اور یہ یورپ کے شاندار ترین ملک جرمنی کی شہری بھی تھی‘ زندگی کی خوبصورتیاں اس کے راستے میں بکھری ہوئی تھیں لیکن اس نے اس وقت ایک عجیب فیصلہ کیا‘یہ جرمنی سے کراچی آئی اور اس نے پاکستان میں کوڑھ کے مرض کے خلاف جہاد شروع کر دیا اور یہ اس کے بعد واپس نہیں گئی‘ اس نے پاکستان کے کوڑھیوں کے لیے اپنا ملک‘ اپنی جوانی‘ اپنا خاندان اور اپنی زندگی تیاگ دی‘انہوں نے کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ پر چھوٹا سا سینٹر بنایا اور کوڑھیوں کا علاج شروع کر دیا‘ کوڑھ کے مریضوں اور ان کے لواحقین نے اس فرشتہ صفت خاتون کو حیرت سے دیکھا کیونکہ اس وقت تک کوڑھ کو اﷲ کا عذاب سمجھا جاتا تھا‘ لوگوں کا خیال تھا یہ گناہوں اور جرائم کی سزا ہے۔

چنانچہ لوگ ان مریضوں کو گناہوں کی سزا بھگتنے کے لیے تنہا چھوڑ دیتے تھے‘ ان کے لیے پہلا چیلنج اس تصور کا خاتمہ تھا‘ انھیں بیماری کو بیماری ثابت کرنے میں بہت وقت لگ گیا اور اس کے بعد مریضوں کے علاج کا سلسلہ شروع ہوا‘ اس عظیم کاتون نے اپنے ہاتھوں سے ان کوڑھیوں کو دوا بھی کھلاتی تھی اور ان کی مرہم پٹی بھی کرتی تھی جن کو ان کے سگے بھی چھوڑ گئے تھے۔ ڈاکٹر روتھ کا جذبہ نیک اور نیت صاف تھی چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ میں شفا دے دی‘ یہ مریضوں کا علاج کرتی اور کوڑھیوں کا کوڑھ ختم ہو جاتا‘ اس دوران ڈاکٹر آئی کے گل نے بھی انھیں جوائن کر لیا‘ ان دونوں نے کراچی میں 1963ء میں میری لپریسی سینٹر بنایا اور مریضوں کی خدمت شروع کردی‘ ان دونوں نے پاکستانی ڈاکٹروں‘ سوشل ورکرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی ٹریننگ کا آغاز بھی کر دیا ۔
یوں یہ سینٹر 1965ء تک اسپتال کی شکل اختیار کر گیا‘ان ہوں نے جزام کے خلاف آگاہی کے لیے سوشل ایکشن پروگرام شروع کیا‘ ڈاکٹر کے دوستوں نے چندہ دیا لیکن اس کے باوجود ستر لاکھ روپے کم ہو گئے‘ یہ واپس جرمنی گئی اور جھولی پھیلا کر کھڑی ہو گئی‘ جرمنی کے شہریوں نے ستر لاکھ روپے دے دیے اور یوں پاکستان میں جزام کے خلاف انقلاب آ گیا۔ وہ پاکستان میںجزام کے سینٹر بناتی چلی گئی یہاں تک کہ ان سینٹر کی تعداد 156 تک پہنچ گئی‘ ڈاکٹر نے اس دوران 60 ہزار سے زائد مریضوں کو زندگی دی۔
یہ لوگ نہ صرف کوڑھ کے مرض سے صحت یاب ہو گئے بلکہ یہ لوگ عام انسانوں کی طرح زندگی بھی گزارنے لگے۔ ان کی کوششوں سے سندھ‘ پنجاب‘ خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے جزام ختم ہو گیا اور عالمی ادارہ صحت نے 1996ء میں پاکستان کو ’’لپریسی کنٹرولڈ‘‘ ملک قرار دے دیا‘ پاکستان ایشیاء کا پہلا ملک تھا جس میں جزام کنٹرول ہوا تھا‘ یہ لوگ اب قبائلی علاقے اور ہزارہ میں جزام کا پیچھا کر رہے ہیں اور ان کا خیال ہے اگلے چند برسوں میں پاکستان سے جزام کے جراثیم تک ختم ہو جائیں گے۔

حکومت نے 1988ء میں ان کو پاکستان کی شہریت دے دی‘ اسے ہلال پاکستان‘ ستارہ قائداعظم‘ ہلال امتیاز اور جناح ایوارڈ بھی دیا گیا اور نشان قائداعظم سے بھی نوازا گیا۔ آغا خان یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا۔ جرمنی کی حکومت نے بھی اسے آرڈر آف میرٹ سے نوازا۔ یہ تمام اعزازات‘ یہ تمام ایوارڈ بہت شاندار ہیں لیکن یہ فرشتہ صفت خاتون اس سے کہیں زیادہ ’’ڈیزرو‘‘ کرتی ہے‘ جوانی میں اپنا وہ وطن چھوڑ دینا جہاں آباد ہونے کے لیے تیسری دنیا کے لاکھوں لوگ جان کی بازی لگا دیتے ہیں اور اس ملک میں آ جانا جہاں نظریات اور عادات کی بنیاد پر اختلاف نہیں کیا جاتا بلکہ انسانوں کو مذہب اور عقیدت کی بنیاد پر اچھا یا برا سمجھا جاتا ہے‘ جس میں لوگ خود کو زیادہ اچھا مسلمان ثابت کرنے کے لیے دوسروں کو بلا خوف کافر قرار دے دیتے ہیں۔

ان کا نام ڈاکٹر روتھ فاؤ ھے۔۔

ڈاکٹر روتھ کا عین جوانی میں جرمنی سے اس پاکستان میں آ جانا اور اپنی زندگی اجنبی ملک کے ایسے مریضوں پر خرچ کر دینا جنھیں ان کے اپنے خونی رشتے دار بھی چھوڑ جاتے ہیں واقعی کمال ہے ۔ ڈاکٹر روتھ اس ملک کے ہر اس شہری کی محسن ہے جو کوڑھ کا مریض تھا یا جس کا کوئی عزیز رشتے دار اس موذی مرض میں مبتلا تھایا جو اس موذی مرض کا شکار ہو سکتا تھا۔ ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے یہ خاتون‘ اس کی ساتھی سسٹر بیرنس اور ڈاکٹر آئی کے گل پاکستان نہ آتے اور اپنی زندگی اور وسائل اس ملک میں خرچ نہ کرتے تو شاید ہمارے ملک کی سڑکوں اور گلیوں میں اس وقت لاکھوں کوڑھی پھر رہے ہوتے اور دنیا نے ہم پر اپنے دروازے بند کر دیے ہوتے‘ ہمارے ملک میں کوئی آتا اور نہ ہی ہم کسی دوسرے ملک جا سکتے۔ یہ لوگ ہمارے محسن ہیں چنانچہ ہمیں ان کی ایوارڈز سے بڑھ کر تکریم کرنا ہو گی۔

.                                                                                                                                                  

Guatemala country








                     گوئٹے مالا:Guatemala country
گوئٹے مالا سینٹرل امریکہ کا  ایک ننھا سے ملک ھے۔۔۔ میکسیکو کے جنوب میں واقع ھے ۔۔۔ 1920 سے لیکر 1996 تک  مختلف فوجی آمروں کی حکومتوں اور مسلسل خانہ جنگی کے باعث غربت،   کوکین ، کرپشن، جرنیلوں کی منی لانڈرنگ اسکی اقتصادی ترقی کیلئے ایک چیلنج ھیں ۔۔۔ شوگر کین، کپاس، کافیbeans ، کارن، ڈرائی فروٹس ، سبزیات ، عام پھل  (خصوصا" کیلا) یہاں کی اھم کیش کراپس ھیں ۔۔۔ دس عدد شوگر ملز بھی ھیں ۔۔۔ یہاں تین لاکھ ھیکٹرز پر کمرشل شوگر کین کاشت ھوتا ھے ۔۔۔ چینی ، کافی beans ، کیلا اور ڈرائی فروٹس ایکسپورٹ کرتا ھے  ۔۔۔ بہت خوبصورت ملک ھے۔۔۔  اگرچہ شدید زلزلوں، سمندری طوفانوں  اور آتش فشاں  پھٹنے اور لاوا بہہ نکلنے volcanoes کی زد میں رھتا ھے   ۔۔۔ یہاں کے قدرتی نظارے ، rain forests اور ھزاروں سال پرانے آثار قدیمہ دیکھنے سے تعلق رکھتے ھیں ۔۔۔۔ مجھے بطور شوگر کین کنسلٹنٹ گوئٹے مالا کو وزٹ کرنے کا اتفاق حاصل رھا ھے۔

ڈاکٹر سجاد اصغر چوھدری
ھیڈ آف ایگری ڈویژن
المعز / تھل انڈسٹریز ۔ پاکستان

Wednesday, August 9, 2017

Java Finch









                       جاوا فنچ ( Java Finch )

یه انڈونیشیاء کے جزائر جاوا, بالی اور باوین میں ندی نالوں کے اردگرد اور زیرکاشت علاقوں میں پاۓ جانے والی خوبصورت فنچ ھے جسکی لمبائی 5.5 انچ اور وزن 25 گرام ھوتا ھے,اسکی کمر,ونگز اور سینے کا رنگ پرل گرے اور پیٹ کی رنگت پنک ھوتی ھے, سر کالا اور چھرے پر سفید رنگ کا دھبه ھوتا ھے, آنکھوں کے اردگرد رنگ سرخ, ٹانگیں پنک اور چونچ موٹی اور سرخ ھوتی ھے, نر اور ماده کے پروں کی رنگت ایک جیسی ھوتی ھے لیکن نر کی چونچ زیاده موٹی, زیاده گھری اور چونچ کی بنیاد سوجھی ھوئی دیکھائی دیتی ھے, نر کی آنکھوں کے اردگرد رنگ بھی زیاده سرخ اور سوجھا ھوا ھوتا ھے, صرف نر ھی گاتا اور ڈانس کرتا ھے, ایشیاء میں یه بھت مقبول فنچ ھے, لوگ شوق سے اسے گھروں میں رکھتے اور پالتے ھیں-

کلر میوٹیشنز :-

وائٹ, سلور, کریم, فان, پائیڈ, پیسٹل

افزائش نسل :-

یه تقریبأ 8 ماه کی عمر میں جوان ھوتے ھیں, ماده 4-8 انڈے دیتی ھے,دن کے وقت نر اور ماده دونوں اور رات کو صرف ماده ھی انڈوں کو انکوبیٹ کرتی ھے, انکوبیشن کا دورانیه 14 دن کا ھوتا ھے, 3-4 ھفتوں کی عمر میں بچے گھونسلے سے باھر آ جاتے ھیں لیکن 6 ھفتوں کی عمر تک والدین کے ساتھ ھی رھتے ھیں-شدید سرد, گرم اور خشک موسم میں بریڈ نھیں کرتے, اچھی اور متوازن خوراک اور بھترین دیکھ بھال کی بدولت یه سارا سال بریڈ کر سکتی ھے-

پنجره :-

انھیں کالونیز میں رکھنا زیاده بھتر ھے, 6×6 فٹ اور 7 فٹ اونچے برڈ روم میں 40 جوڑے رکھے جا سکتے ھیں, نیسٹ باکس کی پیمائش 5×5×5 انچ ھونی چاھیے, نھانے کیلۓ شاور یا متبادل بندوبست ھونا چاھیے, گھونسله بنانے کیلۓ گھاس یا پودوں کی نرم ٹھنیاں اچھی طرح خشک ھونی چاھیں-

خوراک :-

مختلف گھاسوں کے بیج اور اجناس انکی خوراک کا حصه ھوتے ھیں, دوسری فنچز کی نسبت یه بڑے سائز کے بیج زیاده پسند کرتی ھیں, کٹا ھویا جو اور سرخ چاول بھی انکی خوراک میں شامل کرنا چاھیے, انکی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کیلۓ ابلا ھویا چھلکوں سمیت انڈه اور کٹا ھویا سبز چاره بھی انکی خوراک کا حصه ھونا چاھیے-

طبعی عمر :-

انکی اوسطأ طبعی عمر 10 سال ھوتی ھے-

Hana Pouter Pigeon










ھانا پاوٹر پیجن   ( Hana Pouter Pigeon )

یه پومیرینین اور انگلش پوٹر کے موریوئن سٹریسر کے ساتھ کراس بریڈنگ سے چیکوسلواکیه میں ڈیویلپ کی جانے والی کبوتروں کی ایک فینسی اور نمائشی بریڈ ھے, جسم عمودی اور اوپر کو اٹھا ھوتا ھے, اسکے سر,کمر,ونگز, بب اور دم کے پر رنگدار اور باقی سارے جسم کے پر سفید ھوتے ھیں, سر بڑا اور گول ھوتا ھے, آنکھوں کی رنگت اورنج یا سرخ ھوتی ھے, چونچ بڑی اور مضبوط ھوتی ھے جس کا رنگ پروں کی رنگت سے ملتا جلتا ھوتا ھے, گردن لمبی اور  توانا ھوتی ھے, کراپ یا گلوب بڑا اور ناشپاتی کی شکل کا ھوتا ھے, سینے کا سائز درمیانه اور اسی تناسب سے کمر کی چوڑائی ھوتی ھے جو کافی ڈھلوان دار ھوتی ھے, دم لمبی, کم چوڑی اور ڈھلوان دار ھوتی ھے لیکن دم کا آخری سرا زمین سے بلند ھوتا ھے, ٹانگیں لمبی سیدھی مضبوط اور آپس میں کم فاصلے پر ھوتیں ھیں, پاؤں کے پر کافی لمبے اور گھنے ھوتے ھیں, ناخنوں کا رنگ چونچ کے رنگ جیسا ھوتا ھے- اوسطأ وزن 575-600 گرام ھوتا ھے-

کلرز اینڈ کلر پیٹرنز :-

یه بلیک, بلیو, ریڈ, ییلو, سلور, کریم, سرخی مائل براؤن, زردی مائل براؤن رنگوں میں پایا جاتا ھے, ان تمام رنگوں کے چیک اور بار پیٹرن میں بھی پایا جاتا ھے, بارز واضع اور نمایاں ھوتیں ھیں, اسکے علاوه یه سپینگل اور لیس کلر پیٹرنز میں بھی پایا جاتا ھے-

افزائش نسل :-

یه 25 ھفتوں کی عمر میں جوان ھوتے ھیں, ماده دو انڈے دیتی ھے, انکوبیشن کا دورانیه 18 دن کا ھوتا ھے, تین دن تک نر اور ماده کے معدے میں پیدا ھونے والا پیجن ملک چوزوں کیلۓ بھترین خوراک ھوتی ھے, ماده 10 دن تک چوزوں کو خوراک کھلاتی ھے, چوزے ابھی 14 دن کے ھی ھوتے ھیں ماده دوباره سے انڈے دے دیتی ھے, چار ھفتوں کی عمر تک چوزے والدین کے ساتھ ھی رھتے ھیں-

پنجره :-

بریڈنگ پیئر کیلۓ بناۓ جانے والے نیسٹنگ پن کی پیمائش 2.5×1.5 فٹ اور اونچائی 2.5 فٹ ھونی چاھیے, پنجره ھوادار اور روشن لیکن بارش اور تیز ھواؤں سے محفوظ ھونا چاھیے, فلائنگ پن ضرور ھونا چاھیے جس میں یه چھوٹی چھوٹی اڑانیں بھر سکیں, ایک بریڈنگ نیسٹ میں دو بریڈنگ باؤلز ھونے چاھیں کیونکه چوزے ابھی دو ھفتے کے ھی ھوتے ھیں جب ماده دوباره سے انڈے دے دیتی ھے, نیسٹنگ پن میں ایک ھی نیسٹ باؤل کی صورت میں بھت سے پیچدگیاں پیدا ھوتیں ھیں-

خوراک :-

مختلف بیج اور اجناس انکی خوراک کا حصه ھوتے ھیں, افزائش نسل کی بھترین کارکردگی کیلۓ ایک کبوتر کو روزانه تقریبأ 10 گرام پروٹین اور 175 کلو کیلوریز انرجی کی ضرورت ھوتی ھے, ایک جوڑے کو روزانه 110 گرام فیڈ درکار ھوتی ھے, فیڈ یا دانه انکی غذائی ضروریات کے مطابق, متوازن, اور ٹاکسنز سے پاک ھونا چاھیے, دانه/خوراک کے علاوه سبز چاره پھل اور سبزیاں بھی انکی خوراک کا حصه ھونی چاھیں-

طبعی عمر :-

انکی اوسطأ طبعی عمر 12 سال ھوتی ھے-