کیا آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے کن لوگوں پر جہنم کی آگ حرام قرار دی ہے اللہ تعالی جو قہار ہے اس نے اپنے جلال کے ثبوت کے لۓ جہنم بنائی ہے جس میں آگ کے الاؤ گناہ گاروں کی سزا کے لۓ جلاۓ گۓ ہیں جس کی تپش دنیا کی آگ سے ہزارہا گنا زیادہ ہو گی۔جہنم کا ایک دن دنیا کے سیکڑوں دنوں سے زیادہ طویل ہو گا اور اس آگ کا ایندھن وہ لوگ بنیں گے جنہوں نے دنیا کی زندگی اللہ پاک کی نافرمانی میں گزاری۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ اللہ رحیم و کریم بھی ہےاس نے اپنے بندوں کے چھوٹے چھوٹے اعمال پر ان کی جہنم کی آگ معاف کردینے کا وعدہ بھی فرمایا ہے ۔آج ہم آپ کو ان ہی اعمال کے متعلق بتائیں گے جن کے کرنے سے جہنم کی آگ انسان کو چھو بھی نہیں پاۓ گی سیدنا معاذرضی اللہ عنہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ کے ہمراہ آپ کی سواری پر آپ کے پیچھے سوار تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اے معاذ رضی اللہ عنہ، انہوں نے عرض کیا لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ وسعدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے معاذ انہوں نے عرض کیا لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسعدیک تین مرتبہ ایسا ہی ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی اپنے سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ سوا اللہ کے کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے.رسول ہیں اللہ اس پر دوزخ کی آگ حرام کر دیتا ہے۔ صحیح بخاری کتاب العلم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور جو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرے گا اسے اللہ تعالیٰ جنتوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وه ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے اور اس کی مقرره حدوں سے آگے نکلے اسے وه جہنم میں ڈال دے گا جس میں وه ہمیشہ رہے گا، ایسوں ہی کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔ سورۃ النسا 13،14 حسن اخلاق سے پیش آنا سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کیا میں تم لوگوں کو ایسے شخص کے متعلق نہ بتاؤں جس پر دوزخ کی آگ حرام اور وہ آگ پر حرام ہے؟یہ وہ شخص ہے جو نرم مزاج اور لوگوں کے قریب ہے اور ان کے لئے سہولت اور آسانی پیدا کرتا ہے۔ اللہ کے خوف سے رونا اور جہاد کا غبار سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص خوف اللہ کی وجہ سے رویا وہ اس وقت تک دوزخ میں نہیں جائے گا یہاں تک کہ دودھ پستان میں واپس ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کا غبار اور جہنم کا دھواں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ ظہر سے پہلے چار اور بعد میں چار رکعات پر ہمیشگی اختیار کرناام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے سُنا.کہ جو شخص ظہر سے پہلے چار اور بعد میں چار رکعتوں کو ہمیشہ پڑھےاسے اللہ تعالٰی جہنم کی آگ پر حرام کر دے گا ۔ فجر اور عصر کی نماز سیدنا عمارة بن رؤيبة رضي الله عنه کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو سورج طلوع اور غروب ہونے سے پہلے نماز پڑھتا ہے جہنم کی آگ اسے چھو بھی نہیں سکے گی یعنی فجر اور عصر کی نماز۔ اللہ انسان کو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے وہ رحیم و کریم ہے اس نے انسان کے لۓ جنت کا راستہ آسان اور جہنم کا راستہ مشکل بنایا ہے ۔ جہنم کے راستے پر جگہ جگہ اس نے توبہ و استغفغار کی گنجائش رکھی ہے جس سے انسان کسی وقت بھی فائدہ اٹھا کر راستہ بدل کر جنت کی جانب روانہ ہو سکتا ہے ۔ یہ مہلت انسان کو زندگی کی آخری سانسوں تک حاصل ہے اس سے فائدہ اٹھائیں اور جہنم کی آگ سے نجات حاصل کریں ۔
Apni apni kirdar ke bat hai nhi Tu yahan har Banda Kamal krta hai aur kirdar ku bhi achy ikhlaq se banana parhta hai...
Thursday, October 5, 2017
اللہ تعالی نے کن لوگوں پر جہنم کی آگ حرام قرار دی ہے
کیا آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے کن لوگوں پر جہنم کی آگ حرام قرار دی ہے اللہ تعالی جو قہار ہے اس نے اپنے جلال کے ثبوت کے لۓ جہنم بنائی ہے جس میں آگ کے الاؤ گناہ گاروں کی سزا کے لۓ جلاۓ گۓ ہیں جس کی تپش دنیا کی آگ سے ہزارہا گنا زیادہ ہو گی۔جہنم کا ایک دن دنیا کے سیکڑوں دنوں سے زیادہ طویل ہو گا اور اس آگ کا ایندھن وہ لوگ بنیں گے جنہوں نے دنیا کی زندگی اللہ پاک کی نافرمانی میں گزاری۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ اللہ رحیم و کریم بھی ہےاس نے اپنے بندوں کے چھوٹے چھوٹے اعمال پر ان کی جہنم کی آگ معاف کردینے کا وعدہ بھی فرمایا ہے ۔آج ہم آپ کو ان ہی اعمال کے متعلق بتائیں گے جن کے کرنے سے جہنم کی آگ انسان کو چھو بھی نہیں پاۓ گی سیدنا معاذرضی اللہ عنہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ کے ہمراہ آپ کی سواری پر آپ کے پیچھے سوار تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اے معاذ رضی اللہ عنہ، انہوں نے عرض کیا لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ وسعدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے معاذ انہوں نے عرض کیا لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسعدیک تین مرتبہ ایسا ہی ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی اپنے سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ سوا اللہ کے کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے.رسول ہیں اللہ اس پر دوزخ کی آگ حرام کر دیتا ہے۔ صحیح بخاری کتاب العلم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور جو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرے گا اسے اللہ تعالیٰ جنتوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وه ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے اور اس کی مقرره حدوں سے آگے نکلے اسے وه جہنم میں ڈال دے گا جس میں وه ہمیشہ رہے گا، ایسوں ہی کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔ سورۃ النسا 13،14 حسن اخلاق سے پیش آنا سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کیا میں تم لوگوں کو ایسے شخص کے متعلق نہ بتاؤں جس پر دوزخ کی آگ حرام اور وہ آگ پر حرام ہے؟یہ وہ شخص ہے جو نرم مزاج اور لوگوں کے قریب ہے اور ان کے لئے سہولت اور آسانی پیدا کرتا ہے۔ اللہ کے خوف سے رونا اور جہاد کا غبار سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص خوف اللہ کی وجہ سے رویا وہ اس وقت تک دوزخ میں نہیں جائے گا یہاں تک کہ دودھ پستان میں واپس ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کا غبار اور جہنم کا دھواں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ ظہر سے پہلے چار اور بعد میں چار رکعات پر ہمیشگی اختیار کرناام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے سُنا.کہ جو شخص ظہر سے پہلے چار اور بعد میں چار رکعتوں کو ہمیشہ پڑھےاسے اللہ تعالٰی جہنم کی آگ پر حرام کر دے گا ۔ فجر اور عصر کی نماز سیدنا عمارة بن رؤيبة رضي الله عنه کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو سورج طلوع اور غروب ہونے سے پہلے نماز پڑھتا ہے جہنم کی آگ اسے چھو بھی نہیں سکے گی یعنی فجر اور عصر کی نماز۔ اللہ انسان کو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے وہ رحیم و کریم ہے اس نے انسان کے لۓ جنت کا راستہ آسان اور جہنم کا راستہ مشکل بنایا ہے ۔ جہنم کے راستے پر جگہ جگہ اس نے توبہ و استغفغار کی گنجائش رکھی ہے جس سے انسان کسی وقت بھی فائدہ اٹھا کر راستہ بدل کر جنت کی جانب روانہ ہو سکتا ہے ۔ یہ مہلت انسان کو زندگی کی آخری سانسوں تک حاصل ہے اس سے فائدہ اٹھائیں اور جہنم کی آگ سے نجات حاصل کریں ۔
Monday, September 11, 2017
Leopard Gecko
کل محترم عزیزم صابر مری نے اور آج عزیزم حاکم بزدار نے ((کھنڑ )) کے متعلق ایک پوسٹ کیا صابر مری کا پوسٹ قدرے تفصیلی تھا پھر بھی تشنگی باقی رہی خیال آیا کہ کچھ تفصیل سے لکھوں ۔
یہ طے شدہ بات ہے کہ ضرب المثل کو لوگ عالمگیر صداقت کہتے ہیں۔جو افراد نہیں معاشروں اور قوموں کے صدیوں کے تجربات اور شواہد کا نتیجہ ہوتا ہے۔
چونکہ بات ہورہی ہے کھنڑ کی تو اس چھپکلی نما جاندار کے متعلق ایک ضرب المثل موجود ہے صدیوں سے وہ یہ ہے
جیںنکوں لڑیا کھنڑ اونکوں ما نہ ڈٹھا جنڑ
اس کا تذکرہ عزیزم صابر نے بھی کیا ۔مگر باتوں باتوں میں کچھ یوں لگا کہ وہ اسکو رد کرگئے۔
پہلے تو اس جانور کے متعلق کچھ معلومات پھر اس کے زہر کے متعلق کچھ باتیں
کھنڑ یہ نام بلوچی اور سرائیکی دونوں میں مستعمل ہے میں وثوق سے تو نہیں کہتا البتہ گمان یہ ہے کہ سرائیکی چونکہ بلوچی کے برعکس اردو کی طرح ایک لشکری زبان یا لہجہ ہے تو اسکی اکثر اصطلاحات مستعار ہیں۔
تو گنجائش ہے کہ میں کہوں سرائیکی نے کسی زبان سے مستعار لیا۔
مگر شاید بلوچی سے نہ لیا ہو چونکہ اس میں جن حروف کے جوڑ سے اسے بنایا گیا لگتا ہے کسی مقامی زبان کا لفظ ہو گا
چونکہ کچھ بعید نہیں کہ بلوچی نے بھی مستعار لیا ہو چونکہ بلوچ جب شام سے ہجرت کرتے ہوئے یہاں آئے اور انکو یہ جاندار یہاں جب پہلی بار نظر آیا تو مقامی لوگوں سے پوچھا ہوگا اسکو تم کیا کہتے ہو۔
یہ ایک رائے ہے۔
اسکو انگریزی میں
Leopard Gecko
کچھ اور مغربی زبانوں میں jeco اور tuko بھی کہا جاتا ہے۔
علمی نام leopard Gekko gecko
عربی میں اسکو ، ابو بریص،فارسی میں مارمولک ، کہا جاتا ہے
بارانی علاقوں میں درختوں تختوں اور سوراخوں میں رہتا ہے۔ اکثر رات کو نکلتا ہے اور جہاں پانی کھڑا ہو وہاں اپنے رہائشی سوراخوں سے ٹیلوں پہ نکل آتے ہیں اور ان سے سب زیادہ خطرہ رات کو پانی لگانے والے کسانوں کو ہوتا ہے ۔کیونکہ اسکو تیرنا بھی آتا ہے۔یہ جاندار شمال مشرقی هند و بنگلادیش، جنوب مشرقی ایشیاء اور ملائیشیا میں پایا جاتا ہے۔
کھنڑ یا مارمولک 15 سنٹی میٹر سے 35 سنٹی میٹر کی لمبائی میں پائے جاتے ہین۔ اسکی شکل سفید چتکبری ہے اور جسم پہ برصی رنگ کے دھبے ہوتے ہیں شاید عربی اسکو اس لیئے ابو بریص کہتے ہوں۔
علاقے کی نوعیت اور موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے اسکے رنگ مختلف بھی ہوتے ہیں۔
اس کے کھر درے جسم سے ایک ایسی رطوبت خارج ہوتی ہے اگر انسان کے جسم پہ لگ جائے اور جذب ہوجائے تو یقینا موت واقع ہوگی ۔
اس لیے بلوچ کہتے ہیں کہ اگر آدمی پہلے پانی میں گھس جائے تو کھنڑ مر جائے اگر کھنڑ پہلے گھس جائے تو آدمی مر جائے گا ۔
مطلب یہ ہے جذب ہونے سے پہلے دھوکا جائے ۔
کچھ عرصے سے اسکے خرید وفروخت کی باتیں بھی سنی ہیں ۔شاید کسی دوائ میں استعمال ہوتا ہے۔
بہرحال ایک زہریلا جانور ہے اور اسکا دم جلدی ٹوٹ کے گر جاتا ہے۔
یہ کہیں کہیں گھروں میں بھی پایا جاتا ہے
مگر جو ہمیشہ نمی والی جگہ پہ رہتے ہیں وہ لڑاکا نہیں۔
اور جو اچانک پانی یا بارش سے باہر نکل آئیں وہ خطرناک ہیں۔
گھریلو کھنڑ کے متعلق تو میرا اپنا تجربہ ہے۔
اور جنگلی کے متعلق کافی سارے زمینداروں نے بتایا تھا۔
پڑھیں اور شیئر کریں اضافی معلومات سے مطلع کریں۔
زوراخ بزدار
ہور ماثو(بارش کی ماں)
ہور ماثو(بارش کی ماں)
قدرت کے کائنات میں عجیب ترین جانداروں میں سے ایک جو بارش کے بعد پلک جھپکتے ہی دیہاتی اور ریگستانی علاقوں میں ظاہر ہوتے ہیں اور پھر سورج کی کرنیں اور دھوپ پڑتے ہی روپوش ہو جاتے ہیں۔اب تک یہ پتہ نہیں چل سکا یہ کہاں سے آتے ہیں اور کہاں جاتے ہیں مہینہ دی نانی
دوستو یہ ایک سرخ خوبصورت نرم ملائم چھوٹا سا کیڑا بارش کے بعد ریگستان میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس کے اوپرریشم جیسے باریک بال ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ انتہائی نرم ملائم ہوتا ہے۔
یہ ریگستان میں کبھی نظرنہیں آتا، صرف بارش کے بعد یہ اچانک باہر آجاتے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق یہ بارش کی رات ہی جمتے ہیں۔ لیکن یہ راتوں رات اتنے بڑے کیسے ہوجاتے ہیں یہ ایک سوالیہ نشان ہے؟ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ بارش سے پہلے اسے کبھی نہیں دیکھا جاتا۔ اور بارش کے بعد دھوپ پڑتے ہی یہ گم ہوجاتا ہے۔ اس لئے مقامی لوگ اسے مہینہ یعنی بارش کی نانی کہتے ہیں۔ یہ ڈیرہ غازی خان کے تمام ریگستانوں میں دستیاب ہے۔ کسی کواس کی تفصیل معلوم ہوتو پلیز شیئرکریں۔
میں ایسا ایک کیڑا گھرلے آیا اور ڈبی میں بند کرکے ایک پروفیسر صاحب کو ریسرچ کیلئے بھیجا، دو دن بعد بھی یہ کیڑا زندہ تھا، اسے باغیچے کے پھولوں میں چھوڑ دیا گیا اور یہ کافی دن زندہ رہا۔ لیکن اس پر ریسرچ نہ ہوسکا
Tuesday, September 5, 2017
چترال میں اسلام کی آمد
چترال میں اسلام کی آمد
گل مراد خان حسرت
قبل از اسلام دور
اسلام سے پہلے اس علاقے میں جن مذاہب اور تہذیبوں کی موجودگی کا انکشاف اب تک ہوا ہے ان میں سے اولین کا تعلق قدیم آریاؤں سے ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ جیسے TUCCI ، STACUL ٗ احمد حسن دانی، اور ڈاکٹر احسان علی کے مطابق اس دور سے تعلق رکھنے والی جو قبریں چترال میں پرواک، سنگور اور اوچشٹ کے مقامات پر دریافت ہوئی ہیں، ان کا زمانہ ۲۵۰۰ اور ۱۰۰۰ قبل از مسیح کے درمیان ہے۔ اس تہذیب کو یہ ماہرین Gandhara Grave Culture کا نام دیتے ہیں۔ اور چترال میں دریافت شدہ آثار کو تین مختلف ادوار سے متعلق بتاتے ہیں۔ اس تہذیب سے تعلق رکھنے والوں کے مذہب کے بارے میں خیال ہے کہ وہ مظاہر پرست تھے، یعنی سورج، پہاڑوں، دریاؤں، درختوں، اور آگ وغیرہ کی پرستش کرتے تھے۔ دیگر مظاہر پرستوں کی طرح آریہ بھی ہر اس چیز کو پوجتے تھے جو ان کے لیے مفید ثابت ہوتی تھی، خصوصاً زراعت کے لیے۔ تاہم اس علاقے میں آتش پرستی کے اثرات زیادہ ملتے ہیں کیونکہ ایران کے ہخامشی (Achemanian) خاندان کے عہد (۵۰۰ تا ۳۲۷ ق م) میں بادشاہ دارائے اول (Darius-I) نے اپنی فتوحات کا دائرہ چترال اور اس کے گرد و نواح تک وسیع کیا تھا۔ یاد رہے کہ ہخامشی دور میں ایران میں مجوسی مذہب رائج تھا جس میں آتش پرستی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس علاقے میں ایرانی ثقافت کا ایک اور ورثہ جشن نوروز ہے۔ جو چترال کے بعض علاقوں میں منایا جاتا ہے۔ کوئی نصف صدی قبل اس تہوار کو فروری کے مہینے میں 'سال غریئک' یا "پتھاک" کے نام سے منانے کا رواج تھا۔ تاہم اب چترال کے اسماعیلی، دیگر علاقوں کے اسماعیلیوں کے ساتھ اسے نوروز کے نام سے ۲۱ مارچ کو مناتے ہیں۔
اگلا دور جس کے بارے میں کچھ شواہد ملتے ہیں، بدھ مت کا ہے۔ دوسری صدی عیسوی میں جب کنشک بادشاہ بنا تو اس نے بدھ مذہب کی سرپرستی کی۔ اس کے نتیجے میں اس کی سلطنت میں بدھ مت خوب پھیلا۔ اس کی سلطنت پشاور سے چینی ترکستان تک پھیلی ہوئی تھی۔ شمالی پاکستان بشمول چترال اس سلطنت کا حصہ تھا۔ ۶۲۹ میں چینی سیاح ہیون سانگ یہاں سے ہو کر گندھارا کی طرف گیا۔ وہ اس پورے علاقے کو مستوج کا نام دینے ہیں۔ وہ کہتے ہیں "یہاں تمام فصلیں پیدا ہوتی ہیں۔ گندم، دالوں اور انگوروں کی بہتات ہے۔ موسم سرد ہے ۔ لوگ تنومند، سچے اور کھرے ہیں۔ ان کی سوچ محدود ہوتی ہے اور یہ درمیانے درجے کے محنتی ہیں۔ زیادہ تر اونی کپڑے پہنے جاتے ہیں۔ بادشاہ اور رعایا سب بدھ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ مذہبی رسوم کے زیادہ پابند تو نہیں لیکن عقائد میں مخلص ہیں۔ یہاں پر صرف دو خانقاہیں ہیں جن میں راہبوں کی ایک چھوٹی تعداد رہتی ہے۔ "
چترال میں رائین، چرون اور برینس کے مقامات پر اس دور سے تعلق رکھنے والے چٹانی کتبات ملتے ہیں، جن پر کھروشتی رسم الخط کی تحریروں کے ساتھ بدھ سٹوپا کی تصویریں کندہ ہیں۔ ان کتبات میں راجہ جے ورمن کا ذکر ملتا ہے۔ بدھ مذہب کا رواج اس علاقے میں تقریباً دسویں صدی عیسوی تک رہا اور اس کے بعد اسے زوال آنا شروع ہو گیا۔ اس زمانے میں لوگ واپس قدیم مظاہر پرستی کی طرف لوٹ گئے۔ عبدالحمید خاور کے مطابق اسلام کی آمد کے وقت گلگت اور چترال کے لوگوں کا مذہب نہ بدھ تھا اور نہ انہیں شیومت سے کوئی نسبت تھی۔ بلکہ قدیم آرین مظاہر پرستی اور اوہام پرستی کے طریقوں پر چل رہے تھے۔ یہی وہ عقاید ہیں جن پر آج کلاش لوگ کاربند ہیں۔
چترال میں جب اسلام آیا تو اس کا واسطہ کھو اور کلاش کلچروں سے پڑا۔ ان دونوں ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے اس وقت اپنے قدیم کافر طریقوں پر چل رہے تھے۔ چترالی روایات میں ان دونوں ثقافتوں کو ملا کر کلاش دور کہا جاتا ہے۔ بالائی چترال میں ہمیں جا بجا کافر دور سے منسوب قلعوں اور دیہات کے نام ملتے ہیں۔ ریری اویر میں گاؤں کے اوپر ٹیلے پر کھنڈرات ہیں جن کے متعلق مقامی روایات ہیں کہ یہ کلاش سردار ژونگ کے قلعے کے ہیں۔ اور یہ کہ قلعے سے لے کر نیچے ندی تک ایک سرنگ بھی موجود تھی۔ لولیمی تریچ میں ایک گاؤں کا نام کلاشاندہ ہے اور سہرت موڑکھو میں ایک گاؤں کلاشاندور کہلاتا ہے۔ کلاش آبادی کے بارے میں سنوغر اور پرواک میں بھی روایات موجود ہیں۔ پرواک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کافر دور میں یہ ایک سر سبز خطہ تھا۔ روایت یہ ہے کہ پرواک تین بھائیوں کی ملکیت تھا۔ جن میں سے ایک جس کا نام دربتوشالی تھا، پرواک لشٹ میں مقیم تھا اور اس کے قلعے کے اثار یہیں ملتے ہیں۔ دوسرا جو سگ کہلاتا تھا نصر گول میں رہتا تھا اور اسی مناسبت سے یہ جگہ سگو لشٹ کہلاتا ہے۔ جبکہ تیسرے بھائی شپیر کی جائے رہایش زیریں پرواک تھی اور یہ علاقہ اب شپیرو لشٹ کہلاتا ہے۔
چترال میں کافر دور کے معاشرے کی ایک خصوصیت یہ رہی ہے کہ عورت کو آیام کے دوران آبادی سے دور ایک مکان میں رکھا جاتا تھا۔ اس مکان کو کھوار میں بشالینی کہتے ہیں جبکہ کلاش اسے بشالی کہتے ہیں۔ بالائی چترال میں کئی مقامات اب بھی بشالینی کہللاتے ہیں جیسے بونی میں دریا کے کنارے، پھار گام کوشٹ میں ندی کے کنارے، شوتخار میں ٹیلے کے اوپر اور تریچ میں دریا کنارے۔ کسی زمانے میں ان جگہوں پر بشالینی موجود ہوں گے، لیکن اب صرف ان کے بام باقی رہ گئے ہیں۔
بالائی چترال کی روایات میں ایک حکمران سوملک کا ذکر ملتا ہے۔ ان کے متعلق روایت ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی ہی میں اپنی موت کی خیرات دی، جس کا سلسلہ سات دن تک جاری رہا۔ یاد رہے کہ کلاش اور قبل اسلام کے کھو معاشروں میں موت کے خیرات کی بہت اہمیت ہے۔
چترال پر لشکر اسلام کا حملہ
ساتویں اور آٹھویں صدی میں چترال اور اس کے ارد گرد کے علاقے چینی سلطنت کا حصہ تھے۔ ۷۵۱ ء میں چینیوں اور مسلمانوں کے درمیاں فیصلہ کن جنگ کے نتیجے میں ان علاقوں پر سے چینی اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ اس کے بعد تبتیوں نے آگے بڑھ کر ان علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ تبتیوں کے توسیع پسندانہ عزائم کی روک تھام کے لیے خلیفہ ہارون رشید (۸۱۳-۸۳۳) کے دور میں تبت کی تسخیر کے لیے مہم روانہ کی گئی۔ شاہ کابل کے تخت کے کتبے پر پر درج ہے کہ "امام نے سبز علم کو ذوالریاستین کے ہاتھوں کشمیر اور تبت کے علاقوں میں لہرایا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بوخان (واخان)، بلور، جبل خاقان، اور جبل تبت میں فتح سے ہمکنار کیا۔ اس زمانے میں چترال اور اس کے ارد گرد کے علاقے بلور کہلاتے تھے۔
جیسا کہ مذکور ہوا ہے کہ اس حملے کا اصل مقصد تبت اور اس کے مقبوضات کی فتح تھی، اس لیے اسلامی لشکر نے اسلام کی اشاعت کے لئے کوئی کردار ادا نہیں کیا ہو گا۔ چترال میں کوئی ایسا خاندان نہیں جس کی روایات میں ہو کہ وہ اس حملے کے نتیجے میں مسلمان ہوئے تھے۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ اس طرح کے علاقوں کو فتح کرنے کے بعد مسلمان ان کو باجگزار کر کے چھور دیتے تھے اور وہاں ٹھہر کر اسلامی سلطنت کے قیام میں دلچسپی نہیں لیتے۔
چترال میں اسلام کی آمد
چترال میں اسلام چودھویں صدی میں رئیس اول شاہ نادر رئیس کے ساتھ آیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ترکستان میں جس کو کاشعر کہا جاتا تھا، چنگیز خان کے بیٹے چغتائی کی اولاد کی حکومت تھی، جن کو خان کہا جاتا تھا۔ اس وقت کاشعر ایک خود مختار ریاست تھی۔ اور اس کی یہ حیثیت سترہویں صدی تک برقرار رہی۔ یہ خاندان چودھویں صدی میں اسلام قبول کر چکا تھا اور سنی مکتبہ فکر کے ساتھ تعلق رکھتا تھا۔ انہی حکمرانوں نے شاہ نادر کو رئیس بنا کر چترال بھیجا تھا۔ ٔW. Berthhold کے مطابق قدیم ترکستان میں رئیس کا عہدہ موجود تھا، جس پر اس خاندان کے شرفاء میں سے کسی کو مقرر کیا جاتا تھا، جو سلطنت کے کسی حصے پر حاکم ہوتا۔ یعنی موجودہ اصطلاح میں گورنر۔ شاہ نادر رئیس نے چترال کو فتح کر کے یہاں حکومت قائم کی تو یہ سلطنت کاشغر کا حصہ بن گیا۔ اور چترال ہمسایہ ممالک میں کاشغر کہلانے لگا۔ تذکرۃ الابرار میں ہے کہ "خان کاجو کی نقل و حرکت کی خبر سن کر قزن شاہ کاشعر کی طرف چلا گیا۔ یہ ملک سوات کے بالکل نزدیک واقع ہے۔ وہاں کا حکمران طبقہ ترکی بولنے والے سنی مسلمانوں اور رعایا کفار پر مشتمل ہے."
شاہ نادر رئیس کی آمد کے وقت یہاں کوئی مسلمان موجود نہیں تھا۔ تورکھو اور موڑ کھو میں سوملک کی اولاد کی حکومت تھی۔ علاقہ بیار کی آبادی قدیم آریہ نسل کے کافروں پر مشتمل تھی جب کہ برینس سے نیچے کلاش کافر سردار حکومت کرتے تھے۔ رئیس کو یہ علاقے فتح کرتے ہوئے چترال پہنچنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی کیونکہ یہاں کی قلیل آبادی مزاحمت کے قابل نہیں تھی۔ البتہ چترال میں کلاش حکمران بل سنگھ سے اس کی جنگ ہوئی۔ بل سنگھ جود مارا گیا اور اس کا بیٹا مطیع ہو کر مسلمان ہوا۔ شاہ نادر رئیس نے موجودہ ژانگ بازار میں قلعہ تعمیر کیا اور اپنے مغل فوجیوں کو قلعہ سے متصل آباد کیا۔ یہ جگہ اب بھی مغلان دہ یعنی مغلوں کا گاؤں کہلاتا ہے۔ رئیس کی آمد کے ساتھ چترال اور اس کے نواحی علاقوں میں مسلمان آبادی وجود میں آئی جس میں فاتحین کے علاوہ مقامی نو مسلم بھی شامل تھے۔ رئیس اول کے بعد جان رئیس اور خان رئیس حکمران بنے۔ خان رئیس نے سوملکی حکمران یاری بیگ کو ہرا کر موڑ کھو پر بھی قبضہ کر لیا۔ اور ان علاقوں میں پہلی بار اسلام کی اشاعت کی راہ ہموار ہو گئی۔ بالائی چترال میں اویر سے موڑکھو کے علاقے تک پہلی بار اسلام پہنچا۔ محمد عرفان عرفان کی تحقیق کے مطابق شاہ اکبر رئیس کے زمانے میں شاہ شمس اور اس کے تین مرید بابا ایوب، شیخ ایوب اور ملائے روم اویر آئے۔ اس زمانے میں یہاں اسلام نہیں پھیلا تھا۔ شاہ شمس نے اشاعت اسلام کے لیے اس علاقے کی یوں تقسیم کی۔ شیخ ایوب کو اویر، بابا ایوب کو لون گہکیر اور ملائے روم کو موڑ کھو۔ اور خود یہاں سے چلے گئے۔ ان تین درویشوں نے یہاں اسلام کی تبلیغ کا کام کیا۔ اٹھارویں صدی تک اس علاقے کے تمام لوگ مسلمان ہو چکے تھے۔ اس کا ثبوت شاہ عبد القادر رئیس کی سند ہے جو اس نے ملا بابا آدم کو اویر سے لیکر موژ گول تک کے قضاۃ کے عہدے پر تقرری کے لیے دیا تھا۔ سند کی تاریخ ۱۱۷۶ ھ (۱۷۶۳ ع) ہے۔ نیز سند میں خاص چترال کے قاضی کا عہدہ بھی انہی عالم کو دیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ علاقوں کے لوگ دیگر علاقوں کی نسبت پہلے مسلمان ہو چکے تھے۔ شاہ ناصر رئیس کا دور اس سلسلے میں خصوصی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ انہی کے زمانے میں اسلام کی اشاعت میں تیزی آئی۔ ان کے امراء کی اکثریت اہل سنت عقیدے سے تعلق رکھنے والوں پر مشتمل تھی۔ ان میں تورکھو کے بائک اور خوش، موڑ کھو کے حاتم بیگ، تریچ کے ماژ، اویر کے مقصود اور خوشحال بیگ، کوہ کے خسرو اور شغنی، اور دنین کے مرزا بیگال شامل تھے۔ انہی کی اولاد سے جو قبائل وجود میں آئے وہ انہی کے نام سے موسوم ہیں۔ اسی طرح دربار میں ملائے روم کی اولاد بھی موجود تھی، جن کا مسکن موڑکھو تھا۔ اہل دربار سب سے زیادہ اہمیت سنگین علی کو حاصل تھی جس کا عہدہ سپہ سالار کا تھا۔ سنگین علی کی اولاد سے کئی قبایل وجود میں آئے جن میں سے کٹورے اور خوش وقتے نے چترال اور گلگت کے حکمران رہے۔چترال اور شاہ ناصر خود سنی المذہب تھا اور اس کی اولاد بھی اسی پر قائم رہی۔ شاہ ناصر نے مذہب کی ترویج کے لیے بدخشان سے علماء کو چترال بلا کر یہاں آباد کیا۔ ان میں سے ایک عالم ملا دانشمند رستافی کا نام تاریخ میں ملتا ہے۔ اسے خاص چترال بشمول علاقہ کوہ کا قاضی مقرر کیا گیا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دور تک چترال سے برینس تک اسلام مکمل طور پر پھیل چکا تھا۔
شاہ ناصر کے دور کا ایک اہم کام زیریں چترال کے علاقوں کو فتح کرنا ہے۔ یہ علاقہ مختلف کلاش سرداروں کے زیر نگیں تھا۔ اس فتح سے اس علاقے میں اسلام کی اشاعت کی راہ ہموار ہوئی اور اسلام بتدریج اس خطے میں پھیلنے لگا۔ یہاں تک کہ موجودہ دور میں بمبوریت، بریر اور رومبور کی وادیوں کے سوا کلاش مذہب کا نام و نشان نہیں ملتا۔
جنوب میں گبرونگ کے علاقے کے لوگ غالباً افغانوں کے زیر اثر پہلے مسلمان ہوئے۔ شاہ محمد شفیع کی ایک سند میں ملا بابا آدم کو نرست کے علاقے کی زکواۃ جمع کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت یہ علاقہ مسلمان تھا۔
چترال میں اسماعیلی مذہب
چترال میں اسماعیلی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد سنیوں سے بہت کم ہے۔ اسماعیلی بیشتر مستوج اور لٹکوہ کی تحصیلوں میں رہتے ہیں۔ آج سے تقریباً سو سال پہلے تک تحصیل مستوج میں سنیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ لیکن آج اس علاقے میں ان کی قابل قدر تعداد بستی ہے۔
چترال اور گلگت میں اسماعیلی مذہب کے پیرو کار آج اس مذہب کی نئی شکل کی پر عمل کرتے ہیں جب کہ بدخشان، قولاب، درواز، شغنان، واخان، سیقول اور سنکیانگ میں یہ لوگ مذہب کی اس قدیم شکل پر عمل پیرا ہیں، جو حکیم ناصر خسرو (جنہیں یہاں پیر شاہ ناصر کہا جاتا ہے) سے منسوب ہے۔ اس طریقے میں امام کے نائبین پیر اور ان کے نائبین خلیفہ کہلاتے ہیں جو عموماً سید نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ناصر خسرو گیارہویں صدی عیسوی میں بدخشان کے درہ یمگان میں آکر مقیم ہوئے اور باقی ساری زندگی یہیں روپوشی میں گزاری۔ چترال کے اسماعیلیوں میں یہ روایت ہے کہ وہ چترال کے علاقے گرم چشمہ بھی آئے۔ اس جگہ ایک زیارت گاہ بھی ان سے منسوب ہے۔ لیکن ان کے سفر نامے میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ قیام یمگان کے دوران انہوں نے ارد گرد کے علاقوں میں دعوت کا ایک سلسلہ قائم کیا اور مختلف علاقوں میں داعی بھیجے۔ ان داعیوں کا سلسلہ نسل در نسل آگے چلا۔
شاہ ناصر رئیس کے دور میں ملک اژدر کے تین بیٹے سیرنگ، سورونگ اور یخشی گلگت کی طرف سے چترال کے علاقے میں آئے۔ یہ اس علاقے میں آنے والے اولیں اسماعیلی تھے۔ ان میں سے سورونگ لاسپور کے گاوں بروک میں قیام پذیر ہوا جب کہ یخشی اور سیرنگ سنوغر میں بس گئے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں یہاں کی آبادی بہت کم تھی۔ یہ تھوڑے سے لوگ قدیم مظاہر پرستانہ مذہب پر کاربند تھے۔ سیرنگ اور یخشی نے اپنے پیر شاہ محمد رضا کو اشکاشم سے بلایا اور وہ سنوغر میں ٹھہر گیا۔ ان کا تعلق ناصر خسرو کے سلسلے سے تھا۔ انہوں نے اس علاقے میں دعوت کا کام شروع کیا جس کے نتیجے میں قدیم مذہب کے ماننے والے اس کے پیرو کار بن گئے۔ اس علاقے میں ان کی اولاد نے بھی اسماعیلی دعوت کو جاری رکھا جس کے نتیجے میں اہل سنت سے تعلق رکھنے والے رضا خیل، خوشوقتے اور خوشآمدے خاندانوں کے ان افراد نے بھی، جو علاقہ بیار میں آباد تھے ، اسماعیلی مذہب قبول کر لیا۔
جہاں تک لٹکوہ میں اسماعیلیت کی اشاعت کا تعلق ہے، اس کا سہرا ان آباد کاروں کے سر ہے جو بدخشان کے علاقہ منجان سے یہاں آ کر آباد ہوئے۔ اس نسل کے لوگ اب بھی اس علاقے میں موجود ہیں اور یدغا زبان بولتے ہیں۔ اس علاقے کی وادی ارکاری میں اسماعیلی مذہب کی اشاعت میں شاہ نواز اول کے خاندان کا کردار اہم ہے۔ وہ زیباک کے میران کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ انہیں اس علاقے میں مذہبی پیشوائی بھی حاصل تھی، اس لیے انہیں پیر کہا جاتا ہے۔ ان کے بیٹے شاہ عبد الرحیم اول امام کی طرف سے زیباک، شاخدرہ اور اشکاشم کی پیشوائی پر مامور تھا۔ ان کے بعد ان کا بیٹا شاہ یاقوت مسند نشین ہوا۔ ایک روایت کے مطابق ہنزہ کا میر غضنفر انہی کے ہاتھوں اسماعیلی مذہب میں داخل ہوا۔ اس سے پہلے ان کا خاندان شعیہ تھا۔ شاہ یاقوت کا بیٹا شاہ پرتوی اور ان کا بیٹا شاہ عبد الرحیم ثانی بھی مسند پیری پر فائز رہے۔ اس سلسلے کے سارے پیروں نے لٹکوہ میں دعوت کا کام داعیوں کے ذریعے جاری رکھا۔ یہ داعی، جو عام طور پر سید ہوتے تھے، لٹکوہ میں آ کر قیام پذیر ہوئے۔ ان کے ہاتھوں لٹکوہ کی ساری آبادی قدیم مذہب کو چھوڑ کر اسماعیلی طریقے میں داخل ہو گئی۔
افغانستان کے امیر شیر علی کے عہد میں حالات کو نا موافق پا کر اس خاندان نے چترال کی طرف ہجرت کی۔ اس وقت کے مہتر امان الملک نے شاہ عبد الرحیم کو ارکاری اور ان کے بھایئوں کو چوئنج میں جائدادیں دے کر آباد کیا۔ نیز ان کے ساتھ رشتے بھی کیے جس کے نتیجے میں ان کی پوزیشن مستحکم ہو گئی اور وہ نہایت دلجمعی سے دعوت کا کام کرنے لگے۔
ایک اور خاندان شاہ اردبیل کا ہے جو اٹھارویں صدی کے وسط میں بدخشان سے آ کر حسن آباد شغور میں آباد ہوگیا۔ شاہ اردبیل کا بیٹا شاہ حسین اور ان کا بیٹا سید غلام علی تھا۔ اس خاندان کے مرید چترال کے علاوہ ہنزہ میں بھی موجود تھے۔ سید غلام علی شاہ کے بعد ان کے فرزند شاہ عبد الحسن پیر بنا۔ اس طرح یہ خاندان پانچ پشتوں تک دعوت کا کام کرتا رہا۔
اہل سادات میں سے ایک اور خاندان ریچ کا ہے۔ ان کا جد اعلیٰ شاہ محمد وصی رئیس دور میں چترال آیا۔ چترال آنے سے پہلے وہ یاسین میں ٹھہرا، اور یہیں شاہ بابر رئیس کی بہن سے شادی کر لی، جو شاہ ناصر رئیس کی طرف سے یہاں حکمران تھا۔ شاہ وصی ریچ میں مقیم ہوا اور یہیں فوت ہوا۔ ان کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ سنی المذہب تھے۔ تاہم اس سلسلے میں درج ذیل نکات قابل غور ہیں۔
۱۔ رئیس دور میں جتنے علماء سنی علماء باہر سے آئے، وہ خاص چترال اور اس کے نواح میں آباد ہوئے۔ جب کہ اسماعیلی داعی اور سادات باہر سے آ کر واخان اور بدخشان کی سرحدوں سے متصل علاقوں میں مقیم ہوتے رہے، تا کہ سرحد پار اسماعیلیوں کے ساتھ آسانی سے رابطہ رکھ سکیں
۲۔ چترال میں جتنے بھی سادات آئے وہ اسماعیلی دعوت سے منسلک تھے۔
۳۔ کسی بھی مذہبی شخصیت کی اولاد کا جائزہ لے کر ہم اس شخصیت کے مذہب کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ سادات ریچ کے بارے معلوم ہے کہ ان میں اب سے چار پانچ پشت پہلے تک کوئی سنی المذہب نہ تھا۔ یہ سب اسماعیلی تھے اور عموماً خلیفہ کا منصب اسی سلسلے کے سادات کے لیے مختص تھا۔ یہی لوگ نکاح، جنازہ، دعا اور چراغ روشن وغیرہ کی رسومات کی ادائیگی کے ذمہ دار تھے۔
ان حقائق کے پیش نظر یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ شاہ محمد وصی اسماعیلی داعی کی حیثیت سے آیا ہو گا۔ نیز یہ کہ تور کھو میں اسماعیلی مذہب کو پھیلانے میں ان اور ان کے خاندان کا کردار ہو سکتا ہے۔
۲۔ چترال میں جتنے بھی سادات آئے وہ اسماعیلی دعوت سے منسلک تھے۔
۳۔ کسی بھی مذہبی شخصیت کی اولاد کا جائزہ لے کر ہم اس شخصیت کے مذہب کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ سادات ریچ کے بارے معلوم ہے کہ ان میں اب سے چار پانچ پشت پہلے تک کوئی سنی المذہب نہ تھا۔ یہ سب اسماعیلی تھے اور عموماً خلیفہ کا منصب اسی سلسلے کے سادات کے لیے مختص تھا۔ یہی لوگ نکاح، جنازہ، دعا اور چراغ روشن وغیرہ کی رسومات کی ادائیگی کے ذمہ دار تھے۔
ان حقائق کے پیش نظر یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ شاہ محمد وصی اسماعیلی داعی کی حیثیت سے آیا ہو گا۔ نیز یہ کہ تور کھو میں اسماعیلی مذہب کو پھیلانے میں ان اور ان کے خاندان کا کردار ہو سکتا ہے۔
چترال میں اسماعیلی مذہب کو پھیلانے کے سلسلے میں ایک اور نام پیر سید جلال کا بھی ہے۔ اس کے علاوہ یاسین، غذر اور پنیال میں اس مذہب کو پھیلانے میں سید اکبر شاہ کا نام لیا جاتا ہے، جن کی کوششوں سے اس علاقے کے لوگ شیعہ مذہب چھوڑ کر اسماعیلیت میں داخل ہوئے
Thursday, August 17, 2017
Monday, August 14, 2017
Sunday, August 13, 2017
HOW TO GROW SAFFRON? WHAT IS SAFFRON in Urdu
HOW TO GROW SAFFRON?
WHAT IS SAFFRON in Urdu
زعفران کیا ہے؟
سیفران انگریزی میں جبکہ عربی اردو میں زعفران کہتے ہیں۔ ایک قیمتی مصالحہ یعنی سپائس ہے جو مختلف ادویات میں استعمال کیا جاتا ہے۔اور بذات خود بہت ساری بیماریوں اور پیچیدگیوں کا علاج ہے۔آج سے سو سال قبل زعفران کی فی تولہ قیمت سونے کی فی تولہ قیمت سے زیادہ تھی۔ہربل اور میڈیسنل پراڈکٹ کی وجہ سے دنیا بھر میں اس کی بہت مانگ ہے۔ایران، اسپین،آکلینڈ،نیدر لینڈ، انڈیا،برازیل، کشمیروغیرہ کے زعفران دنیا بھر میں پسند کئے جاتے ہیں۔ ایران اکیلا ایسا ملک ہے جو پوری دنیا کی نوے فیصد ضرورت پوری کررہا ہے۔ اور یہ ضرورت ایران کی چند ایک چھوٹے چھوٹے قصبے ہیں۔جنہوں نے زعفران کی کاشت پر توجہ دی ہے اور وہی لوگ پوری کررہے ہیں۔ یوں زعفران کی اہمیت اور فوائد انسانی زندگی کے لئے کلونجی کی مانند ہے۔ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ صرف سرد علاقوں میں کاشت کیا جاتا ہے۔ یہ دراصل سردیوں کا پودا ہے جو سردیاں شروع ہوتے ہی لگایا جاتا ہے اور آٹھ ہفتوں سے لیکر بارہ ہفتوں کے درمیان پھول آجاتے ہیں۔ طبی لحاظ سے زعفران کے بہت سارے فوائد ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اگر اسے اپنے معمولات کے کھانوں میں استعمال کرنا شروع کیا جائے تو بہت ساری بیماریوں سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتاہے۔اور سالانہ صحت کے مد میں اخراجات میں کافی حد تک کمی آسکتی ہے۔پاکستان میں اس کی کاشت۱۵اگست سے لیکر ۲۵اکتوبر تک کیا جاتا ہے۔ جن علاقوں میں اس دوران درجہ حرارت ۳۵ کے نیچے آنا شروع ہوجائے تب اسکو لگایا جاتا ہے۔ یعنی بعض علاقوں میں اگست میں جبکہ بعض علاقوں میں ستمبر یا اکتوبر میں لگایا جاتا ہے۔جن علاقوں میں۲۵اکتوبر تک بھی درجہ حرارت ۳۵کے نیچے نہ آئیں۔تو ان علاقوں میں نہیں لگانے چاہیئے۔جبکہ بعض لوگ اکتوبر کے آخر اور نومبر میں بھی لگا لیتے ہیں۔اور ان کے نتائج بھی اچھے آچکے ہیں۔ مگر بہتر یہی ہے کہ ۱۵اگست اور ۲۵ اکتوبر کے درمیانے عرصہ میں لگائیں۔ذہن نشین کرلیں کہ جب بھی آپ کے علاقہ کا درجہ حرارت ۱۵اگست اور۲۵اکتوبر کے درمیان ۳۵کے نیچے آنا شروع ہوجائے تو اس پودے کو لگایا جاسکتا ہے۔یعنی کہ سردیاں شروع ہوتے ہی لگایا جاتا ہے۔اگر پاکستان میں اس فصل کو فروغ دیا جائے تو ہمارے لاکھوں بے روزگار شہری لاکھوں کروڑوں روپے کما سکتے ہیں۔اور وطن عزیز کو زرمبادلہ کی صورت میں اربوں روپے کما کے دے سکتے ہیں۔
کاشت کرنے کا طریقہ:
زعفران کاشت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ایک حصہ مٹی،ایک حصہ گوبر کھاد اور ایک حصہ ریت آپس میں برابر مقدار میں چھان کر گملوں،فروٹ کے پلاسٹک کریٹ،گھی ڈبوں،کھیت ،کھیاری،باغیچہ یا کسی بھی زمیں میں لگایا جاسکتاہے۔اگر گملے یا کسی کنٹینر میں لگانے ہوں تو گملہ کے اندر چند ایک پتھر ڈال دیں تاکہ سوراخ مٹی سے بلاک نہ ہوں۔اور یہ ایک ویل ڈرینڈ پاٹ بن سکے۔مقصد یہ ہوتاہے کہ نکاس آب اچھے سے ہو۔کیونکہ زعفران کے پودے کے لئے زیادہ پانی کی ضرورت نہیں ہوتی۔مٹی کھاد اور ریت بھرنے کے بعد اگست ستمبر یا اکتوبر جس ماہ بھی درجہ حرارت۳۵کے نیچے آنا شروع ہو۔اس میں زعفران کاشت کئے جاتے ہیں۔جس طرح لہسن کا بلب دو یا ڈیڑھ انچ مٹی کے اندر اسطرح لگایا جاتا ہے کہ اس کے اوپر کی سطح مٹی سے باہر نظر آسکتا ہو اسی طرح زعفران کا بلب لگایا جاتاہے۔گملے کے ارد گرد اندر کی جانب تھوڑا سا پانی دیں تاکہ گملہ کے اندر مٹی میں نمی آسکے تاکہ بلب سرسبز ہونے مدد دے سکے۔ہر دوسرے تیسرے روز معائنہ کرلیں اگر پانی کی ضرورت محسوس ہو تو تھوڑا سا پانی اور دیں۔ پھولوں کے آنے تک پانی زیادہ دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ہفتہ دس دن بعد تھوڑا سا فوار یا شاور ہی کافی ہوتا ہے تاکہ مٹی نم رہے۔پھولوں کے آنے تک نم رکھیں زیادہ نمی بھی نقصان دہ ہوتی ہے۔اتنا پانی نہ دیں کہ جس سے گملے کے اندر کیچڑ پیدا ہو۔
کھیت میں لگانے کے لئے ضروری ہے کہ کھیت اس طرح ہموار کرنی چاہیئے کہ اس سے پانی کا اخراج آسانی سے ہو۔تاکہ پانی زیادہ دیر تک کھڑا نہ ہو ۔کھیت میں ہر چھ سے بارہ انچ قطاروں میں لگائیں۔تاکہ درمیان میں ایک بندہ آسانی سے گزر سکتا ہو۔درمیانی راستہ اگر ایک فٹ سے زیادہ رکھ لیں اور پودا چھ انچ کے فاصلے پر لگائے تو زیادہ بہتر ہوتاہے۔ویسے اس سے کم فاصلے پر بھی لگایا جاسکتاہے۔فاصلہ اگر زیادہ رکھ لیا جائے تو اس کا یہ فائدہوتاہے کہ زمین کے اندر بلب بڑے اور زیادہ پروڈیوس ہوتے ہیں۔اور زعفران کے بلب بھی کافی مہنگے ہیں۔آٹھ ہفتوں سے بارہ ہفتوں کے درمیان زعفران کا پودا پھول دیتاہے اور ہر پھول کے درمیان تین لال رنگ کے ریشے ہوتے ہیں جس کو سٹگما کہتے ہیں نکلتے ہیں۔ اور یہی زعفران کہلاتے ہیں۔ یعنی زعفران کے پھولوں کے اندر تین لال رنگ کے ریشوں کو کاٹ کر دس بارہ گھنٹے تک چھاوں میں سوکھا کر وہی زعفران کہلاتے ہیں جو مارکیٹ میں ۵۰۰ ۶۰۰ کا ایک گرام ملتاہے۔چھاوں میں اچھے سے سوکھانے سے سٹگماز کی لائف بڑھ جاتی ہے۔اور زیادہ عرصہ کے قابل استعمال ہوتے ہیں۔سٹگماز حاصل کرلینے کے بعد پودے کو اسی جگہ رہنے دیں۔ کیونکہ ایک پودے سے مزید بلب زمین کے اندر پروڈیوس ہوتے ہیں۔بعض علاقوں میں بلب ایک سال میں میچور ہوجاتے ہیں جبکہ بعض علاقوں میں دو سال میں یعنی جولائی اگست تک ۔جولائی اگست میں چاہیں تو بلب کو اکھاڑ کر دوسری جگوں پر لگائے جاتے ہیں یا اگر رہنے دیئے جائیں تو اس سے زیادہ پھولوں اور زیادہ سٹگماز پھولوں کے سیزن میں آئیں گے اور اگر اس کو تین چار سالوں تک ایک ہی جگہ پر رہنے دیا جائے اور دیکھ بھال کی جائے تو یہ گھاس کی طرح تین چار فٹ تک جگہ گھیر لیتی ہے۔ اگر ہر سال اکھاڑنا مقصود نہ ہوں تو لگاتے وقت زیادہ فاصلہ سے لگائیں۔ اور یاد رہے کہ پہلے سال اس سے ۴ سے ۸ تک بلب پروڈیوس ہونگے دوسرے سال ۴ ۸ کے تناسب سے مزید سٹگماز اور بلب پروڈیوس ہونگے۔ اور اسی طرح پہلے سال کی نسبت دوسرے تیسرے چوتھے پانچویں سال کی پروڈکشن میں اسی تناسب سےاضافہ ہوتا جائے گا۔
پانی:
زعفران کے پودے کو زیادہ پانی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہفتہ دس دن بعد ہلکا سا فوار یا شاور کافی ہوتا ہے۔بارش یا پانی آنے کی صورت میں کھیت یا گملے سے نکاس اچھے سے ہو۔ پھول چونکہ سردیوں آتے ہیں اس لئے زیادہ پانی کی ضرورت نہیں ہوتی جب سٹگماز حاصل کرلئے جاتے ہیں تو جنوری فروری میں ہلکا فوار اور اس کے بعد مارچ اپریل مئی جون جولائی تک پانی زیادہ مقدار میں دیا جاسکتاہے۔ کیونکہ اس دوران اس میں پھول نہیں لگتے بلکہ ساری محنت بلب کے حصول کے لئے کی جاتی ہے۔ کھیتوں میں لگانے کے لئے بیڈز بنائیں اور دونوں جانب نالے دیں تاکہ پانی کی نکاس اچھے سے اور جلدی ہو۔ اگر گملہ لگانا ہو تو پانی ہفتہ میں ایک بار شاور یا فوارے سے دیا کریں۔ زیادہ پانی دینے سے پودا خراب ہوسکتاہے۔ کھیت میں پانی دینے کے لئے ضروری ہے کہ چیک کیا جائے کہ کھیتی میں زیادہ نمی نہ ہو۔ یعنی دس پندرہ دنوں میں درکار ہوتا ہے۔ اور نکاسی اچھے سے ہو پانی کھڑا ہونے نہ دیں۔
مارکیٹ:
پاکستان میں بہت سارے ہربل مینوفیکچررز کمپنیاں موجود ہیں، اس کے علاوہ دواخانے، حکیم صاحبان، پنسار سٹورز حضرات اور بہت سے دواساز کمپنیاں موجود ہیں۔ جن کے مصنوعات میں زعفران ایک اہم جز ہوتا ہے۔ اور یہی لوگ اربوں روپے کے زعفران باہر ممالک سے ایمپورٹ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بڑے شہروں میں زعفران پیکنگ کمپنیاں ہیں جو آن لائن اور آف لائن زعفران کو پیک کرکے اندرون و بیرون ملک سیل کرتے ہیں۔ زعفران کے عادی افراد کی تعداد میں بھی روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ اگر پاکستان میں اس کی کاشت توجہ دی گئی تو انشا ء اللہ وہ دن دور نہیں کہ ہمارا ملک بھی ایران کی طرح ایک بڑا ایکسپورٹر بن جا ئے گا۔ انشاء اللہ
احتیاطی تدابیر:
بلب لگاتےوقت اور پھولوں کے آنے تک سوئل نم رکھیں۔
زیادہ پانی دینے سے گریز کریں۔
بلب اکھاڑتے وقت سوئل کو خشک رکھیں۔
نکاس آب کا خاص خیال رکھیں۔
خرگوش، چوہے،بچے پرندے اور چوروں کی پہنچ سے دور رکھیں۔
اس پودے میں بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت زیادہ ہوتی ہے۔ اگر کوئی بیماری آ بھی جائے تو وہی اسپرے دوا استعمال کرے تو عام پھولوں پودوں کی بیماریوں کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔فاضل جڑی بوٹیوں کو پودے کے آس پاس نہ چھوڑیں۔ اور گوڈی باقاعدگی سے ضروری ہے۔
آمدن:
زعفران سے تین قسم کی آمدن حاصل کی جاسکتی ہے۔
سٹگماز:
سٹگماز فی گرام ۵۰۰ ۶۰۰ روپے مارکیٹ ملتا ہے۔ بلکہ بعض حضرات تو اسپینش ،کشمیری ،ایرانی کے نام پر ایک ہزار بارہ سو روپے پر بھی فروخت کرتے ہیں۔
بلب:
ایک پودے سے سال دو سال میں مزید چار سے آٹھ تک بلب پروڈیوس ہوتے ہیں۔ ایک کنال میں بارہ ہزار پودے لگائے جاتے ہیں۔ اگر اوسط بلب پروڈکشن پانچ بھی ہو تو کنال سے ساٹھ ہزار تک بلب پروڈیوس ہوتے ہیں جو آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
زعفرانی شہد:
جب پودے میں پھول اور سٹگماز آجاتے ہیں تو اس دوران شہد کی مکھیوں کی پیٹیاں رکھی جاتی ہیں۔ جس سے حاصل ہونے والا شہد ستر ہزار روپے سے لیکر نورے ہزار روپے فی کلو مارکیٹ میں ملتا ہے۔ دوبئی میں پچیس سو درہم سے لیکر تین ہزار درہم کا ایک کلو ملتاہے۔ جو زیادہ تر طبی ماہرین پانچ سو سے زیادہ بیماریوں کا علاج سمجھتے ہیں۔
کوالٹی:
اسپین، ایران اور کشمیری زعفران دنیا بھر میں کافی مشہور ہیں۔ اکثر لوگ اسپینش زعفران یا انڈین کشمیری زعفران کو بہت اعلی معیار کا مانتے ہیں۔دراصل زعفران کا معیار ایک ہی ہوتاہے۔ قدرت نے وہ تمام صفات اس میں رکھی ہیں۔ جو صفات اسپینش یا کشمیری میں ہیں وہی صفات ایرانی زعفران میں بھی ہیں۔ اسپینش زعفران یا کشمیری سرد علاقوں کا زعفران ہے جسے بہت محنت کے ساتھ شدید برفباری اور سردی میں تیار کیا جاتاہے۔ یورپ میں اسی محنت کو دیکھ کر معاوضہ طے کیا گیا ہے اس لئے اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ اسپینش زعفران زیادہ معیاری اور مہنگے ہوتے ہیں۔ ٹماٹر چاہے تین ڈالر کلو ہو یا پانچ ریال یا درہم یا تیس روپے کلو ۔غذائیت، سرخی،ترشی وہی ہوتی ہے جو کھانے کو خوش ذائقہ بنانے کے کام آتی ہے۔
سٹگماز اور بلب کو محفوظ رکھنا:
سٹگماز کو پھولوں سے الگ کرکے کسی صاف کپڑے یا کاغذ پر ایسی جگہ رکھیں جہاں پر تیز ہوا نہ چلتی ہو تاکہ یہ بکھر نہ جائیں دس بارہ گھنٹے چھاوں یعنی سایہ میں کسی کمرے یا برآمدے میں سوکھایا جاتا ہے جتنا اچھے سے سوکھائے جائیں گے۔ اتنی ہی اس کی لائف زیادہ ہوگی۔ سوکھانے کے بعد ائیر ٹائیٹ جار،بوتل،پاٹ،شیشہ میں محفوظ کر لئے جاتے ہیں۔
بلب کو محفوظ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہوادار جگہ پر رکھے جائیں۔ اور ہفتہ دس دن بعد معائنہ کرکے صاف کئے جائیں تاکہ اس میں کوئی خرابی نہ آسکے۔ یا آسان الفاظ میں جس طرح لہسن یا پیاز کے بلب کو محفوظ کیا جاتا ہے۔اسی طرح زعفران کے بلب بھی محفوظ کئے جاتے ہیں۔ تاکہ یہ سیزن میں لگانے کے کام آسکے۔
زعفران کی کاشت اور اسکی پہچان
🌼🌼🌼بسم اللّٰہِ الرّحمٰن الرَّحیم🌼🌼🌼
زعفران کی کاشت :: سلسلہ نمبر 2
***زعفران کے بلب (بیج) : اصلی اور نقلی کی پہچان***
مارکیٹ میں ایسے زعفران کے بلب بھی موجود ہیں جو غیر معیاری ہوتے ہیں۔ اور پاکستان کے موسم کے مواقف نہیں ہوتے لہذا ان کے لگانے پہ اپنا قیمتی وقت اور پیسہ ضائع نہ کرے۔اکثر لوگ کم پیسوں کا لالچ کرکے لگا بھی دیتے ہیں مگر ان پھول نہیں آتے اور ان کا وقت اور پیسہ ضائع ہوجاتا ہے۔
------------------------------------------
بلب (بیج) ::
کاشت اور اچھی پیداوار کیلئے بلب (بیج) اچھے میعار کا ہونا چاہیے۔ تاکہ اچھے نتائج حاصل کیے جا سکیں۔
بلب(بیج) اچھی ورائٹی کا ہو۔ پاکستان کی آب و ہوا کیمطابق ہو۔ بلب (بیج ) اچھے سائز کا ہو۔ چھوٹے اور متاثرہ بلب (بیج ) سے اچھی پیداوار ممکن نہیں۔
چھ سے سات گرم کے بلب (بیج) سے اچھی پیداوار ممکن ہے۔
نیچے دی گئی بلب کی تصاویر ملاحظہ فرمائیں ۔
------------------------------------------
زعفران کا پودا ::
اس کا پودا پنتالیس سینٹی میٹر ہوتا ہے اور یہ پیاز سے ملتا جلتا ہے
زعفران کے کچھ باريک پتے ہيں، پتوں کے بيچ ميں زعفران کا تنا ہے جس پر پھول بن جاتا ہے ، اور ہر تنے کے اوپر ايک سے تين تک پھول بن جاتے ہيں- زعفران کے پھول وايليٹ ہيں اور ہر پھول کي چھ پھول کي پتيوں کي ہيں-
------------------------------------------
زعفران ::
زعفران کے پودے میں پھولوں سے زعفران حاصل یا جاتا ہے یہ چھوٹی چھوٹی کونپل نما جو ریشے کی مانند مالٹا رنگ کی ہوتی ہیں۔ بعد میں ان کونپلوں یا ریشوں کو خشک کر لیا جاتا ہے۔ بس زعفران تیار
=================================
یہ قرآن پاک 1100 سو سال پرانا ہے
ڈیرہ غازی خان
یہ قرآن پاک ڈیرہ غازی خان کے بلاک نمبر 4 کی جامع مسجد میں رکھا ہوا ہے جوکہ قریب 1100 سال پرانا ہے۔
سبحان اللہ۔
اسکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ قرآن پاک کسی تابعی کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔
ڈیرہ غازی خان کی اس مسجد میں یہ قرآن پاک قریب 1908 میں لایا گیا تھا جو کہ الحمداللہ اب بھی کافی حد تک بہتر حالت میں ہے۔
اسکو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں۔
تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کی زیارت کر سکیں ۔
۔ ۔ ۔ جزاک اللہ ۔ ۔ ۔
نوٹ:
یہ قرآن پاک سال میں صرف ایک مرتبہ رمضان کے آخری جمعتہ المبارک کو زیارت کے لیے کھولا جاتا ہے۔
مرغیوں کی کالی سیاہ نایاب نس
ایام سمانی ۔ مرغیوں کی کالی سیاہ نایاب نسل۔۔۔۔۔ ۔
انڈونیشیا اور تھالینڈ میں کالی مرغیوں کی ایک نایاب نسل پائی جاتی ھے۔ جسے وہاں کی مقامی زبان میں ۔ ایام سمانی ۔ کہاجاتا ھ ۔ ایام مرغی کو کہتےہیں اور سمانی کا مطلب کالا سیاہ ہوتا ھ ۔ ان حیرت انگیز مرغیوں کا گوشت بھی کالا ہوتا ھ ۔ انکے انڈے بھی کالے سیاہ اور انڈوں کے اندر موجود زردی بھی زرد نہیں بلکہ کالی ہوتی ھ ۔ اس اعتبار سے اسے زردی کے بجائے کلدی کہنا زیادہ مناسب ہوگا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہتےہیں اس کالی مرغی کی یخنی پی لینے والا انسان کبھی بیمار نہیں پڑتا ۔ اسکے بال کبھی سفید نہیں ہوتے ۔ کبھی گنجا نہیں ہوتا ۔ جسمانی کمزوری اور تقابت اسکے قریب سے نہیں گزرتی ۔ ہمیشہ توانا خوش و خرم اور متحرک رہتا ھے.
چنانچہ ۔ یہ مرغی سست الوجود اور کاہل انسان کیلئے اکسیر کا درجہ رکھتی ھے..
Subscribe to:
Posts (Atom)